153

جمہوریت کے نام پر پارلیمانی آمریت

ملک میں اب تک تین قومی اسمبلیوں نے اپنی مقررہ پانچ سالہ مدت مکمل کی اور پہلی قومی اسمبلی کی مقررہ مدت کی تکمیل صدر جنرل پرویز مشرف کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔

جنھوں نے مسلم لیگ (ق) کی حکومت کو 5 سال پورے کرنے کا موقعہ دیا تھا حالانکہ حکومت کو معمولی برتری حاصل تھی اور (ق) لیگ کے تیسرے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی مگر ناکام ہوئی تھی اور اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر چوہدری امیر حسین تھے جو اپوزیشن کے نزدیک متنازعہ تھے جن کے ہٹنے کے بعد ان کا نام سیاست سے غائب ہو گیا کیونکہ وہ ایک غیر جانبدار اسپیکر ثابت نہیں ہوئے تھے نہ وہ ایوان کے باعزت کسٹوڈین بن سکتے تھے۔

چوہدری امیر حسین مسلم لیگ (ق) کے جانبدار اسپیکر بن چکے تھے اور پارلیمان کی اچھی روایتوں پر عمل کرنے کی بجائے وہ بھی اسد قیصر کی طرح حکومت اور اپنی پارٹی کے اسپیکر بنے رہے۔ انھوں نے ایوان جانبداری سے چلایا اور اپوزیشن کے کسی اسیر رکن کو ایوان میں لانے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کرتے تھے اور اپنی پارٹی کے ارکان کو ہی ترجیح دیا کرتے تھے اور حکومت کی مرضی کی رولنگ دیا کرتے تھے۔

قومی اسمبلی کی اچھی شہرت کے حامل اسپیکروں میں ملک معراج خالد، گوہر ایوب، یوسف رضا گیلانی، الٰہی بخش سومرو شامل تھے۔ پی پی دور کی خاتون اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بھی ایوان بہتر طور چلایا تھا مگر وہ وزیر اعظم گیلانی کو سپریم کورٹ کی مختصر سزا پر دی جانے والی رولنگ پر متنازعہ ہوگئی تھیں اور سپریم کورٹ نے ان کی رولنگ غلط قرار دی تھی اور یوسف رضا گیلانی کو عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔

مسلم لیگ کے گزشتہ دور کے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق دوبار منتخب ہوئے اور انھوں نے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفے کئی ماہ قبول نہ کرکے انھیں ایوان میں آنے کا نہ صرف موقعہ دیا بلکہ استعفوں کے دوران کئی ماہ ایوان میں نہ آنے اور حکومت کی سخت مخالفت اور طویل دھرنے کے باوجود ساری مراعات بھی فراہم کی تھیں اور عمران خان سمیت تمام ارکان قومی اسمبلی نے لاکھوں روپے وصول کیے تھے۔

قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر اس سے قبل کے پی اسمبلی کے اسپیکر رہے مگر وہ وہاں اتنے متنازعہ کبھی نہیں بنے جتنے قومی اسمبلی میں آ کر ہوگئے۔ ملکی پارلیمنٹ قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے اور ماضی میں سینیٹ کے تقریباً تمام چیئرمینوں نے اچھی شہرت حاصل کی اور موجودہ دور کی طرح متنازعہ نہیں بنے۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی تو ان کے خلاف 64سینیٹر کھڑے ہوئے تھے مگر اصولوں کی نام نہاد عمران خان کی حکومت نے اندرون خانہ اپوزیشن کے 14 سینیٹروں کو اپنے ساتھ خفیہ ووٹنگ میں ملا کر صادق سنجرانی کو بچا لیا تھا ۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اسپیکر و چیئرمین کے عہدے ان کی غیر جانبداری کا تقاضا کرتے ہیں کیونکہ دونوں حکومتوں کے نہیں اپنے اپنے ایوانوں کے کسٹوڈین ہوتے ہیں اور ان اہم عہدوں پر آ کر اپنی پارٹی پالیسی کی بجائے اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلنے اور غیر جانبداری سے آئینی طور پر ایوان چلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر پارلیمنٹ کے یہ دونوں اہم عہدیدار اپوزیشن کے بقول جانبداری اختیار کیے ہوئے ہیں اور حکومت کی ہدایت پر چلتے رہے اور انھوں نے ہر مشکل موقع پر حکومت کا ساتھ دیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے مگر جمہوریت کے نام پر بعض اسپیکروں اور چیئرمینوں نے پارلیمانی آمریت قائم کی اور اکثر مکمل جانبداری کا مظاہرہ کیا اور غیرجانبداری کی بجائے مکمل جانبداری کا ثبوت دیا جو جمہوری اور پارلیمانی اصولوں کے خلاف تھا۔ ملک میں جمہوریت پروان نہ چڑھنے کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں رہے بلکہ بعض حکومتیں اور پارلیمانی سربراہان بھی رہے ہیں۔

بعض حکومتوں نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر پرانے پارلیمانی اداروں کے سربراہوں کو اپنی آمریت برقرار رکھنے اور غیر جمہوری اقدامات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ ملک میں قومی اسمبلی کے اصول پرست اسپیکروں کو تحریک عدم اعتماد لا کر ہٹایا بھی گیا کیونکہ انھوں نے ایوانوں کو جمہوری انداز میں چلانے کی کوشش کی تھی جو نام نہاد جمہوری حکومتوں کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتے تھے اس لیے اصول پرست اسپیکر برداشت نہیں ہوتے۔

بشکریہ ایکسپرس