332

مجھے کیوں نکالا پارٹ ٹو 

سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے نا اہل ہونے کے بعد میاں نواز شریف کبھی یہ سوال پوچھا کرتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا مگر انہیں اپنے سوال کا جواب نہ ملتا اور ہر فورم پر جا کر دہائ دیا کرتے تھے مجھے میرا قصور بتایا جاے مجھے اقامہ کی بنیاد پر نا اہل کیوں کیا گیا مگر چونکہ وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ تھا لہزا انکی شنوائی نہ ہو سکی اور کچھ عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد وہ علاج کے لیے لندن چلے گیے اور تا حال وہیں مقیم ہیں مگر اب وقت کا پہیہ گھوم گیا ھے اور کٹہرے میں نواز شریف نہیں بلکہ عمران خان ہیں جو وہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا اگرچہ عمران خان کا انداز جارحانہ ہے بلکہ خطرناک حد تک جارحانہ ھے ۔اپنے وقت کا مضبوط ترین وزیر اعظم آج مجھے کیوں نکالا جیسی فریاد تو نہیں کر رہا لیکن مطلب وہی ھے بس انداز مختلف ھے وہ نواز شریف کی طرح سوال نہیں پوچھ رہے بلکہ اداروں اور پارلیمان پر برس رہے ہیں عدلیہ سے شکوہ کر ریے ہیں کہ رات کے وقت عدالت لگا کر میرے ساتھ بے انصافی کی گئ اب عںران خان سڑکوں پر ہیں اور عوام کو گرما رہے ہیں ۔اس سارے کھیل میں بنیادی غلطی خود ان کی تھی مگر وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے بلکہ بار دوسروں کے کندھے پر ڈالنے کے عادی ہیں یہ ہی وجہ ھے کہ عدم اعتماد کے معاملے پر انہوں نے زرا لچک نہیں دکھائی نہ پیشہ ورانہ زمہ داریوں کا احساس کیا جبکہ عدالت آیئن کے دایرہ کار کے تحت سپیکر کو ووٹنگ کرانے کا حکم دے چکی تھی مگر حکومت کی کوشش تھی کہ کسی طرح وقت گزارا جاے تاکہ مقررہ وقت ختم ہو جاے اس دوران حکومتی بینچز پر بیٹھے لوگ اپوزیشن کو لمبی لمبی تقاریر سناتے رہے اشتعال دلانے کی کوشش بھی کی تاکہ کسی بھی طرح عدم اعتماد کو ٹالا جا سکے مگر آفرین ھے ان کی استقامت کو کہ وہ خط جس کا غلغلہ ھے وہ نہیں دکھایا ۔بلکہ زبانی کلامی ہی سازش کی داستانیں سناتے رہے یہاں تک کہ خود سپریم کورٹ کو نوٹس لینا پڑا اسلام آباد ہائیکورٹ بھی فعال ہوی۔ قیدیوں کی گاڑی اور ایمبولینس بھی آ موجود ہوی تب یکایک منظر بدلا اور سپیکر اسد قیصر نے اپنی کرسی جناب ایاز صادق کے حوالے کر دی اور اپوزیشن حکومت میں بدل گئ عمران خان حکومتی منظر نامے سے غایب ہو گیے اگرچہ اس میں کچھ "رجال الغیب " کا تذکرہ بھی سننے میں آیا ھے مگر اسکی تردید ہو چکی ھے بہر حال نو اپریل کا دن سابق حکومت اور اس وقت کی اپوزیشن کو ہمیشہ یاد رہے گا کہ عدالتی فیصلے اور آیئن سے کیسے کھلواڑ کیا گیا ۔عدالتی احکامات کی دھجیاں

 اڑای گیئں عدم اعتماد کے نتیجے میں شہباز شریف اب بہ طور وزیر اعظم اپنی زمہ داریاں سنبھال چکے عمران خان صاحب سڑکوں پر ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ بیرون اور اندرون ملک سے ان کے خلاف سازش کی گئ اور ادارے ان کے ساتھ نہیں بلکہ موجودہ کرپٹ نظام کے ساتھ ہیں اسی نظریے کے تحت وہ پورے پاکستان میں احتجاج کر ریے ہیں اور مزید احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں ۔کچھ عوصہ قبل ایک تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ مجھے نکالا گیا تو بہت خطرے ناک ہو جاؤں گا یقینا اب تو نظر بھی آریا ھے کہ وہ کس قدر خطرے ناک ہو چکے ہیں وہ اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہیں اور اس سے پہلے جب وہ "سیم پیج " پر تھے تو نواز شریف کو خوب رگیدا کرتے تھے اب وہ خود ان سے کہیں بڑھ کر بیان بازی بھی کر رہے ہیں اور انکے ٹایئگر جیالے جو سوشل میڈیا ہینڈل کرتے ہیں وہ بھی حد سے گزر ریے ہیں اور پوری دنیا کو ہم پر ہنسنے کا موقع دے رہے ہیں ۔ضد انا تکبر اور نرگسیت سب بہن بھائ ہیں اور ایک سیاست دان میں یہ خصوصیات پیدا ہوں جاییں تو نتیجہ وہی نکلتا ھے جو اب نکلا ھے یہ وہی اپوزیشن ہے جس سے وہ بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے ،انہیں کرپٹ چور ڈاکو لٹیرا فضلو ڈیزل بھگوڑا جیسے الفاظ سے مخاطب کرتے تھے اب وہ اپنا مقدمہ عوام میں لے گیے ہیں پشاور جلسے میں انہوں نے عندیہ دیا کہ اب وہ سڑکوں پر نکلیں گے اور بے غیرت امپورٹڈ گورنمنٹ کو تسلیم نہیں کریں گے البتہ یہ نہیں فرمایا کہ آخر انکے اراکین استغفے کب دیں گے اور صدر عارف علوی کب تک اس بے غیرت حکومت میں صدر رہیں گے ؟اس سے پہلے بھی دھرنوں کے دوران وہ اعلان کے باوجود حکومتی مراعات بھی لیتے رہے اور استعفوں کا اعلان بھی کر رکھا تھا میٹھا میٹھاہپ ہپ کڑوا تھو تھو جہاں بات آئ تنخواہوں کی تو ایوان کا حصہ بن گیے اور جب اپنے مطلب کی بات نہ ہوی تو امپورٹڈ اور غلام قرار دیا ۔جلسے کرنا عمران خان صاحب کا جمہوری حق ھے وہ ضرور جلسے کریں مگر یہ بھی خیال رکھیں کہ ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ھے لہزا اداروں اور قوم کو تقسیم نہ کریں فوج ملک کے تخفظ کی زمہ دار ھے لہزا ایسی کوئ بھی بات ملک و قوم اور اداروں کے لیے تباہ کن ہو گی مگر خان صاحب سمجھتے ہیں کہ دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ھے اور خان صاحب کی ہر آیئنی و غیر آئینی کوشش کے باوجود شہباز شریف نے وزیر اعظم کی شیروانی پہن لی ھے یعنی کہ ان کے دوست دشمنوں کی صف میں جا کھڑے ہوے ہیں ۔حکمران تو آتے جاتے ہیں مگر اصل چیز ملک کے قانون اور آیئن سے وفاداری ،اطاعت اور نظام کا استحکام ھے اب یہاں حال یہ کہ جب سے عمران خان صاحب نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے کا کہا ھے ایک افراتفری اور انتشار کا عالم ھے کبھی ملک اور کبھی بیرون ملک پاسپورٹ یا پرچم کو جلایا جا رہا ھے سنگین قسم کی بیان بازی ہو رہی ھے اگر وہ اپنے تیئں اتنے بڑے رہنما ہیں تو اپنے  سپورٹرز کو تحمل اور صبر کا درس دیں اور خود بھی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر ایک جمہوری عمل کا حصہ بنیں اس طرح پاکستان بھی مضبوط ہو گا اور خود عمران خان صاحب کی سیاسی بقا بھی اسی میں مضمر ھے ۔

بشکریہ اردو کالمز