422

موجودہ سیاسی حالات اور فیصلہ کن موڑ!!

سی آئی اے کے تمام ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات بتاتی ہیں کہ وہ جب بھی کسی ملک سے بدلا لیتی ہے تو پانچ مختلف انداز سے حملہ آور ہوتی ہے ، وہ لیڈروں کو قتل کرواتی ہے ، ملک کا معاشی قتل کرے گی ، سیاسی عدم استحکام کے ذریعے انتشار پیدا کر دے گی ، وہاں کے محروم طبقات کو اپنے ساتھ ملا کر تعصب کو ابھارے گی ، یا اس ملک کی حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرے گی یا میڈیا پر انوسٹ کر کے رائے عامہ بدل دے گی ، اس بات کے ثبوت  تاریخ میں بھرے پڑے ہیں مثلآ 1953 سے آج تک کتنے دستاویزی ثبوت سامنے لائے گئے ہیں، ویتنام ، چلی ، وینزویلا ، ایران اور ترکی میں یہ کوششیں کی گئی اور کامیابی بھی حاصل کی ہے ، مشرق وسطی میں ان سازشوں کے تو انبار لگے ہیں زیادہ دور نہ جائیں پاکستان میں شروع دن سے یہ مانا اور کہا جاتا رہا ہے کہ حکومتوں حتی کہ اداروں کے سربراہوں کو تبدیلی کرنے میں بھی امریکہ کا عمل دخل رہا ہے ، ایسے میں براہِ راست وہ سیاسی زعماء  اور عسکری قیادت پر دباؤ  استعمال کرتی رہی ہے  وہ اچھائی کے لیے یا کرسی کی خاطر ان کے نرغے میں آتے رہے ہیں ، دور نہ جائیں لیاقت علی خان ، ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاء الحق ، اور بے نظیر بھٹو کا خون اسی سی آئی اے کے کندھوں پر ھے ، گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بجا طور پر شکوہ کیا کہ دھشت گردی کے خلاف جنگ میں نان نیٹو اتحادی ھونے کے باوجود ھمیں دفاعی سپورٹ ،  اور مینٹنںس تک فرام نہیں کی بلکہ آئی ایم ایف کے دباؤ ، سمیت تمام یورپی ممالک نے  ھماری مشکل وقت میں دفاعی مدد نہیں کی ، تو کیا اس صورتحال میں ھم چین کے علاؤہ کسی اور پر بھروسہ کر سکتے تھے؟  حتی کہ ایف سکسٹین تک کی ریپرنگ کے معاہدوں پر عمل نہیں ہوا، تو کیا ھم امریکہ، برطانیہ،  اور دوسرے یورپی ممالک پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ھمارے کسی سیاستدان کے پاس نہیں ہے، ھاں البتہ محدود نوعیت کے معاشی فوائد ضرور حاصل رہے ہیں وہ بھی بھیک کی صورت میں تو کیا پاکستان نے کوئی آزادانہ فیصلہ کبھی نہیں کرنا؟ اس سوال پر غور تو بنتا ہے، 
   حال ہی میں یوکرین پر حملہ ھوا وزیراعظم عمران خان اسی دن روس کے طے شدہ دورے پر تھے، یوکرین پر حملے کی مذمت پر اقوام متحدہ میں قرارداد آئی چین، پاکستان ، سری لنکا اور بھارت نے اس میں حصہ نہیں لیا گویا کوئی بھی پوزیشن نہیں لی، اس عمل کے بعد موجودہ سیاسی انتشار اور سری لنکا میں افراتفری سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے تانے بانے سی آئی اے سے ملتے ہیں، ایک ملک جو برآمدات، سرمایہ کاری، اور خودداری کی غیر روایتی کوشش میں تیزی سے منزل کی طرف بڑھ رہا ھو  اسے امریکہ کیسے برداشت کر سکتا ہے ؟، آج سری لنکا معاشی طور پر تباہ کن حالات کا شکار ہے،  اور پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے لیے ہر حربہ استعمال ھو رہا ھے، اس تناظر میں جب ھم لیٹر گیٹ اسکینڈل کو دیکھتے ہیں تو وہ درست معلوم ہوتا ہے، کیا یہ عمران خان کا محض ایک سیاسی بیانیہ ھے یا اس کے حقائق بھی موجود ہیں ؟ اس پر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اعلامیہ موجود ہے جس کا اظہار ڈی جی آئی ایس پی آر بھی کر چکے ہیں، ھم یہ ھرگز نہیں کہہ رہے کہ سیاسی جماعتوں نے خدا خواستہ کوئی غداری کا ثبوت دیا ہے ھاں البتہ انجانے میں ٹریپ ھونے کا عمل دخل ضرور موجود ہے جس کی خبر ملک کے سیکورٹی کے اداروں اور حکومت کے پاس موجود ھے، ھم امریکہ سے جنگ بھی مول نہیں لے سکتے لیکن کم از کم چین کو ناراض کرکے خطے میں کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟، اب  ھم فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں  ادھر یا ادھر ، یہ اب خطے کے ممالک کی ڈیمانڈ بھی ھے اسی بات کا تذکرہ او آئی سی کانفرنس میں بھی ھوا، پاکستان کی اس سلسلے میں بہت عزت افزائی ھوئی، اس دکھ کو بھی امریکہ برداشت نہیں کر پا رہا، سعودی عرب اور ایران بھی اس سے دور ھونے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ افغانستان کو نہتا چھوڑ کر یہاں سے بھی نکل چکا ہے اس صورتحال میں پاکستان کی کوئی حکومت، تھینک ٹینکس اور سیکورٹی کے ادارے کیا فیصلہ کریں گے؟ دوسری طرف چین کے ساتھ اسٹراجیک تعلقات اس پوزیشن پر کھڑے ھوں جہاں ھم نے فیصلہ کرنا ھو تو کیا فیصلہ کریں گے؟ 
  سیاسی جماعتوں کو اس کا ادراک ضرور ہے مگر وہ اظہار کرنے سے قاصر ہیں وہ اس بیانیہ کہ ھم خدا نخواستہ غدار ہیں کے ساتھ انتخابات میں نہیں جا نا چاہتے، وہ کم از کم تین ماہ کی حکومت چاہتے ہیں جس میں وہ الیکشن کمیشن میں ھونے والی ترامیم واپس لے لیں، اور اپنی سیاسی فتح کا جشن منا لیں، ان سب کا درمیانی راستہ الیکشن ہیں، جو اداروں اور عدلیہ کو ہی نکالنا ہوگا، سیاست کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جس ڈیل اور ڈھیل کی وہ نفی کرتے رہتے ہیں اسی کی کوششیں کی جاتی ہے بس ہر جماعت چاہتی ہے کہ پہل میری ھو، اسوقت عمران خان کا بیانیہ قوم میں پختہ ھو چکا ھے، اس کو ختم کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو کوئی فیس سیونگ چائیے، اسوقت سب کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ آرٹیکل 5 کو مانتے ہوئے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو درست سمجھتا ہے اور کیا کسی پر آرٹیکل 6 لگ سکتا ہے؟ تجزیہ نگار امریکی مداخلت کے بیانیے پر روز ایک  خبر لاتے ہیں جب کہ اس کے توڑ کے لیے بھی کئی خبریں موجود ہیں، تاہم ایک بات واضح ہے کہ یہ فیصلہ کن موڑ ھے، اللہ نہ کرے کسی کی جان کی قربانی لگے، یا اخلاق باختگی عروج پر ہو، سب سے آسان حل ایک متفقہ نگران حکومت اور نئے الیکشن ہیں، جس کے لیے کسی نہ کسی کو مداخلت تو کرنی ھو گی، یہ نہ ھوا تو جمہوری نظام کو سخت دھچکا لگنے کا خطرہ ہے پھر کسی کے پاس کچھ نہیں آئے گا ، سیاست میں ارتعاش آتا رہتا ہے، اس کو مذاکرات اور مکالمے سے حل کیا جا سکتا ہے، دوسری صورت میں موجودہ بے یقینی معیشت کی ناؤ تو ڈوبو دے گی پھر آپ امریکہ جائیں یا کہیں اور کوئی فرق نہیں پڑے گا،

بشکریہ اردو کالمز