45

نئی حکومت کو درپیش چیلنجز

    وطن عزیز میں چند روز قبل پیدا ہونے والے ایک شدید سیاسی بحران کے بعد نئی حکومت کی تشکیل سے کافی حد تک سیاسی استحکام پیدا ہو چکا ہے ۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کی برخاستگی کے بعد نئے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے حلف اٹھالیا ، تادم تحریر انہوںنے کابینہ تشکیل نہیں دی جو شاید کالم شائع ہونے تک تشکیل پا جائے۔ یہ کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک بہت زیادہ مخلوط حکومت ہو گی ۔ بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پا جائے گا اور نئی کابینہ جلد ہی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لے گی۔ جس کے بعد ایک نئی حکومت اپنا کام شروع کر دے گی۔ 
    عوام نے گزشتہ چند برس کافی مسائل کا سامنا کیا جن میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا تھا۔ جس نے عوام کا جینا دو بھر کر رکھا تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر اشیاء ضروریہ کی قیمتیں بڑھ رہی تھی۔ جس کی وجہ سے عوام کافی پریشان رہے ۔ گزشتہ حکمرانوں نے کسی بھی طرح کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جس کی وجہ سے مہنگائی کو قابو کرنے اور مسائل کو کم کرنے میں مسلسل ناکامی کا سامنا کرتے رہے۔ انہوں نے زیادہ توجہ عوام کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھانے پر مرکوز رکھی مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے ۔ انہوں نے بیرون ممالک سے بے تحاشاقرض لیے، جس کے لیے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا، ترقیاتی کام کوئی نہ ہوئے، عوام پر ٹیکسوں کا بے تحاشا بوجھ لاد دیا۔ آئی ایم ایف سے بھاری قرضوں کی وصولی اور عوام پر لا محدود ٹیکس نافذ کرنے کے باوجود خزانہ خالی ہونے کا رونا روتے رہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں کتنی کرپشن تھی، ظاہر ہے اگر عوام سیٹیکس بھی بے تحاشہ وصول ہو رہے تھے اور قرض بھی لیے جا رہے تھے اس سب کے باوجود خزانہ بھی خالی تھا تو پھر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے اکاؤنٹس ہی بھرے ہوں گے اور یہ کرپشن والی بات ہم نہیں کر رہے بلکہ عالمی اداروں کی رپورٹس میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے اور ان عالمی اداروں کی وابستگی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔ وہ ہر دور میں کرپشن پر رپورٹیں شائع کرتے رہے ہیںاور ہر دور میں کرپشن میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے لیکن اس بار تو بہت بڑا اضافہ ہوا کہ پاکستان سولہ درجے کرپشن انڈیکس میں نیچے گر گیا۔ پھر یہ وہی ادارے ہیں جن کی رپورٹوں کو بنیاد بنا کر عمران خان خود بھی گزشتہ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مگر جب خود ان کے خلاف یہ رپورٹس آئیں تو ادارے پر تنقید کرنے لگے اور اس کی رپورٹس کو مشکوک قرار دینے لگے۔ 
    مہنگائی ، کرپشن اور بے روزگاری کے ستائے عوام کو صرف ریلیف چاہیے۔ انہیں مہنگائی میں واضح کمی چاہیے،عوام اشیائے ضروریہ بالخصوص اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کمی چاہتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے گزشتہ چند سالوں میں قیمتوں میں اضافہ ہی دیکھا ہے اب اگر کوئی قیمتوں میں کمی کر دے ، بیروزگاری پر قابو پالے تو عوام اسی کو مسیحا سمجھیں گے۔ عوام کو زیادہ ترقیاتی کام سڑکیں اورپل بھی فی الحال نہیں چاہئیں ۔ عوام کو خارجہ اور داخلہ پالیسی سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ عوام کو ان کی پیچیدگیوں کا علم ہی نہیں۔ انہیں تو ان کے رہنماؤں نے جو سنا دیا وہ اسی پر یقین کر لیتے ہیں اور اچھے خاصے پڑھے لکھے کہلانے والے بھی خود چھان بین کر کے حقائق تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لہٰذا آپ خارجہ پالیسی کے بارے میں عوام کو جو سنا دیں گے وہ اسی پر یقین کر لیں گے۔ بیرون ممالک کے ساتھ تعلقات اور دوممالک کے درمیان ہونے والی جنگ میں آپ کی پوزیشن کیا ہے؟ اس سے عوام کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ 
    اسی طرح حکومت سازی میں آپ نے کیا کیا؟ کس کو ساتھ ملایا اور کس کو ہٹایا عوام اس میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے ، صرف سیاسی جماعتوں کے چند ایک کارکنوں کے علاوہ عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون وزیر داخلہ اور کون خارجہ ہے؟ عوام کو صرف مہنگائی میں کمی چاہیے کیونکہ وہ عوام کو خود نظر آتی ہے۔ حکومت کے کہنے سے عام لوگ نہیں مانتے ۔ حکومت لاکھ کہتی رہے کہ ہماری قیمتیں انڈیا سے کم ہیں، یورپ سے کم ہیں، ایشیا اور افریقہ سے کم ہیں لیکن عوام پر جو بیت رہی ہوتی اسے تو وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں اور وہ اسی پر یقین کرتے ہیں۔ اس معاملے میں سیاستدانوں کی باتوں میں نہیں آتے۔ آپ لاکھ کہیں ہم نے ایک کروڑ نوکریاں دے دی ہیں لیکن جس کے اپنے گھر میں چار افراد بے روزگار ہوں وہ کیسے اس بات پر یقین کر لے گا۔ اس لیے اگر نئی حکومت کو کچھ کرنا ہے تو وہ سب سے پہلے اس بات پر توجہ دے کہ کسی بھی طرح ایک بہترین حکمت عملی بنا کر مہنگائی پر قابو پائے اور روز مرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں کم کرے اور پھر کسی بھی طرح بے روزگاری کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے ۔ اگر آپ یہ کام کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اس کے بعد آپ اپنی جو بھی پالیسیاں بنائیں گے اور کچھ بھی کہیں گے عوام آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ 

 
 

بشکریہ اردو کالمز