67

لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

برسوں ہوئے مومن خان مومنؔ نے کہا تھا:

الجھا ہے پائوں یار کا زلفِ دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

لگتا ہے کپتان سیاست کے آئمہ کے دائو و دام میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ کپتان عمران خان جو بزعم خود ہر فن مولا ہیں، ایک عرصہ، بالخصوص تین چار سال سے اُن سیاستدانوں جن کو اِس دشت کی سیاہی میں گویا عمریں بیت گئیں، کو ترساتے و کنارے لگاتے رہے ہیں۔ اسمبلی میں جبمراد سعید جیسے نو وارد خواجہ آصف جیسے جہاندیدہ سیاستدان کو للکارتے، تو رہ رہ کر سیاست کی اُن زریں روایات کا خیال آتاجب سیاست میں باہمی احترام و رواداری اختلافات پر مقدم ہوتی بلکہ شائستگی و برداشت سیاست کے اَن مِٹ اصول کہلائے جاتے۔ ہم ان سطور میں لکھتے رہے ہیں کہ تحریک انصاف اس لیے ہجوم ہی رہی، ایک سیاسی جماعت نہ بن سکی کہ روزِ اول سے ہی اُس میں ایسے سیاستدانوں کو راندہ درگاہ بناکر رکھ دیا گیا جو درحقیقت اس جماعت، ملکی سیاست اور ملکی نظام میں تبدیلی کیلئے کوششیں کرنے کے اہل تھے۔ انقلابی لیڈر معراج محمد خان سے لے کر جاوید ہاشمی تک، سیاستدانوں کی ایسی ایک بڑی کھیپ تھی جسے بروئے کار لاکر ملک کو اُس تبدیلی سے ہمکنار کیا جا سکتا تھا جو پی ٹی آئی کا سلوگن تھا لیکن کیا کِیا جائے کہ جس جماعت کے خمیر میں جنرل حمید گل جیسے سیاست بیزار شخصیت کی سرشت موجود ہو،تو کیونکر یہ جماعت سیاست میں اُس تبدیلی کی نقیب بن پاتی جس کا خواب دیکھ کر اس جماعت میں لاکھوں نوجوان، خواتین اور بزرگ شامل و متحرک ہوئے تھے۔ عرضِ حال یہ ہے کہ کپتان نے عوام کو اور طاقتوروں نے عوام کے اس مقبول لیڈر کو ایسے اپنے سانچے میں ڈھالا کہ سب کچھ وہ ہوا کہ نہ تو ملک کا بھلا ہوا اور نہ ہی عوام کا۔ اقتدار ملنے کے بعد عمران خان کے سامنے دیگر کے علاوہ دو اہم مقاصد تھے، ان میں ایک آئی ایم ایف کا ایجنڈا پورا کرنا اور دوسرا کشمیر پر غیرمحسوس طور پر بیک ڈور ڈپلومیسی کو کامیاب بنانا۔ آنے والے وقت میں جہاں پاکستانی عوام کو موجودہ حکومت کےحوالے سے بعض ہوش ربا واقعات سننے کو ملیں گے وہاں عوام یہ بھی جاننے لگیں گے کہ کشمیری مظلوم عوام کے ساتھ کیا ہاتھ کر دیا گیا ہے! اِن تمام باتوں سے اور آئینی پوزیشن کیا ہے، اس سے فی الحال قطع نظر، عرض یہ ہے کہ کپتان نے ملک کی تمام جماعتوں کو اپنا حریف بناتے ہوئے ملک و قوم میں جو یہ تاثر نمایاں کیا تھا کہ وہی ملک کی نہ صرف خالص قیادت ہیں بلکہ وہ اپوزیشن سے تن تنہا لڑنے اور انہیں شکست دینے کا جوہر بھی رکھتے ہیں، وہ اپنی عوامی مقبولیت کی وجہ سے اس میں اچھے خاصے کامیاب بھی رہے، لیکن دیگر کے علاوہ جاتے جاتے وہ جس طرح ’’نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کا ڈرامہ رچا گئے اس سے اُن تجزیہ کاروں کی اس بات کو تقویت مل گئی ہے کہ عمران خان کی سیاست ذات سے شروع ہوتی ہے اور ذات ہی پر ختم ہوتی ہے، اس میں ملک و قوم کا کوئی عمل دخل نہیں۔ دوسری بات یہ کہ عمران خان یہ کہہ کر کہ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور اس حوالے سے ان سے بہتر اسپرٹ کا مظاہرہ کوئی نہیں کر سکتا، تحریک عدم اعتماد کے بعد پے در پے ان کی جانب سے عجلت، بدحواسی اور کسی منصوبے کے بغیر اُٹھائے جانے والے ہیجان خیز اقدامات سے مگر یہ امر واضح ہوا کہ کپتان اپنی مرضی کا کھیل نہ ہونے پر جس طرح ڈسپلن کو پامال کر تے ہیں وہ کسی بھی طور اسپورٹس مین اسپرٹ نہیں کہلائی جا سکتی۔ سوم یہ کہ کپتان کی یہ للکار کہ وہ آخری گیند تک مقابلہ کرنے کا ہمت و حوصلہ رکھتے ہیں، یوں درست ثابت نہ ہو سکی کہ جونہی عمران خان کو یہ اندازہ ہوا کہ وہ اعتماد کھو چکے ہیں، وہ اُس نام نہاد حربے کو بروئے کار لائے جس کے تحت اکثر عوام کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے یعنی امریکا مخالف نعرے یا کسی سازش کا نام نہاد انکشاف وغیرہ۔ اس سلسلے میں کپتان اپنے اُن پیش روؤں سے کسی بھی طرح پیچھے نہ رہے جنہوں نے قیامِ پاکستان کے فوری بعد ایک ایسی فیکٹری بنالی تھی جہاں سے ایک طرف تو نظریہ پاکستان کے نام پر خود ساختہ ایسے محب وطن نکلتے جو نہ صرف اسلام کے ٹھیکیدار بھی بن جاتے بلکہ وہ جب اور جسے چاہتے غدار کہہ کر حقیقی جمہوریت پسند سیاست دانوں کو عوام سے دور رکھنے کی کوشش کرتے۔ کپتان کو بھی اُستادوں نے یہی سکھایا، جہاں اُنہوں نے مدینے کی مقدس ریاست کا نام اپنے سیاسی عزائم کیلئے استعمال کیا وہاں وہ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے کہ اُن کے ماسوا سب غدار اور چور ہیں، اس سلسلے میں اُس وقت تو اُنہوں نے انتہا کر دی جب نام نہاد خط کے ذریعے عدم اعتماد لانے والوں کو نہ صرف جلسوں میں غدار قرار دیا بلکہ اُن کے ڈپٹی اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو بھونڈے انداز میں مسترد کرتے ہوئے ایوان میں موجود تحریک عدم اعتماد کے حامی 195 اراکین کو ہی غدار قرار دے ڈالا۔ یہ سب غیر سیاسی لیکن کپتان کے سیاسی دامن کو مزید آلودہ بنانے والے مضحکہ خیز اقدامات اُن کی بدحواسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کپتان کو بالآخر اُن زیرک سیاستدانوں نے گھیر کر زچ کر دیا ہے جن سے تن تنہا وہ لڑنے کا تاثر دیتے رہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم