255

عمران خان کے دور اقتدار کا مختصر جائزہ 

     پاکستان تحریک انصاف کا اقتدار3سال5ماہ اور15دن قائم رہنے کے بعد اختتام پذیر ہو چکا  ،عمران خان ملک کے22ویں وزیر اعظم تھے ،اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی کی بغاوت کے باعث ان کے اقتدارکا سورج وقت سے پہلے ہی غروب ہوگیا اور انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی حکومت کا خاتمہ کرلیا،تحریک انصاف کی حکومت سے عوام نے بہت سے امیدیں وابستہ کی تھیں جن میں کرپشن کا خاتمہ ،احتساب ،قرضوں میں کمی ،اداروں میں اصلاحات،لوٹی گئی دولت کی واپسی ،نئے صوبوں کا قیام ،پچاس لاکھ گھر ،ایک کروڑنوکریاں،معاشی ترقی وغیرہ وغیرہ ،عمران خان اور ان کی کابینہ خود اعتراف کرچکی ہے کہ وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کرپائے اور یہ وعدے پورے نہ ہو سکے ،زیر نظر مضمون میں ہم تحریک انصاف کے دور حکومت پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیںاور کارکردگی کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔
    احتساب تحریک انصاف کا مرکزی نعرہ تھا جس کی بنیاد پر2018ء کی انتخابی مہم چلائی گئی ،حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے احتساب کا سارا زور سیاستدانوں پر ہی لگایا جس کی وجہ سے یہ عمل متنازعہ ہوتا چلا گیا اور مجموعی طور پر کرپشن کے بڑے بڑے مقدمات بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے ،اسی دور حکومت میں سامنے آنے والے چینی،گندم، ادویات، گیس کے اربوں روپے کے سکینڈلز بھی فائلوں میں دب کر ماضی کا حصہ بن گئے ،تنازعات اور مقدمات کی سیاست نے سیاسی درجہ حرارت کو گرماکر رکھا جس کی وجہ سے سیاسی طاقتوں کے مابین کسی بھی قسم کی ورکنگ ریلیشن سپ قائم نہ ہو سکی جس کا خمیازہ لا محالہ ملک نے ہی بھگتا،احتساب کو صرف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا جس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک میں کرپشن کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ چکی ہے ۔
    بلا شبہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور معیشت کو سہارا دینا تحریک انصاف کی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج  تھا لیکن مہنگائی میں حد سے زیادہ اضافہ تحریک انصاف کی حکومت کی بڑی غلطی شمار کی جا رہی  ہے  ،عمران خان کے دور اقتدار میں ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی جس کی وجہ سے بجلی گیس پیٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور مہنگائی کی پے درپے لہروں نے عوام کو ناکو چنے چبوا دیئے ،ماہرین کے مطابق تحریک انصاف کے دور حکومت میں مجموعی طور25فیصد سے زائد مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں میں بھی ایک تہائی سے زائد اضافہ ہو چکا ہے دوسری جانب عمران خان ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ بھی وفا نہ کرسکے بلکہ ان کے دور اقتدار میں دو کروڑ سے زائد برسر روزگار افراد بے روزگار ہوئے ،ان کی اپنی حکومت کی جانب سے جاری کردی اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے آغاز پر ملک میں ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد افراد برسر روزگار تھے جن کی تعداد کم ہو کر ساڑھے تین کروڑ رہ چکی ہے ،تحریک انصاف نے جتنی نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا اس سے دوگنی نوکریاں واپس لے لیں۔
    عمران خان ملکی سیاست کی طرح خارجہ امور کو بھی ادل بدل کر چلاتے رہے،پہلے ٹرمپ کے قریب ہوئے اور امریکہ سے دوستی کا دم بھرتے تھے اس دوران انہوں نے سی پیک کو کچھ خاص توجہ نہیں دی بلکہ الٹا ان کے ایک مشیر نے سی پیک پر متنازع بیان بھی داغ دیا ،لیکن جب عمران خان کو امریکہ سے فوری نتائج نہیں ملے تو انہوں نے دوبارہ چین کا رخ کرلیا ، اس جز وقتی خارجہ پالیسی کے انتخاب نے پاکستان کے خارجہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ،تحریک انصاف کے دور حکومت میں یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں بھی بگاڑ پیدا ہوا ، یورپی یونین نیاکثرت رائے سے دو قرادادیں پاکستان کے خلاف منظور کیںاور متعدد عالمی فورمز پر پاکستان کی مخالفت بھی کی گئی ،برطانیہ کے ساتھ عمران خان اپنے دور اقتدار میں سلام دعا تک نہیں کر سکے ،روس کا دورہ بھی کیا مگر اس وقت جب ہوا کا رخ مخالف تھا ،نہ کوئی معاہدہ ہوا نہ کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اور نہ ہی بھارت کی طرح روس سے سستا تیل خریدا جا سکا ،اسی طرح عمران خان اپنے اقتدار کے ابتدائی وقتوں میں عرب ممالک کے کافی قریب دکھائی دیئے مگر بعد میں عرب مخالف بلاک کے حامی بن گئے ،ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ مل کر ملائیشیا میں پہلے کانفرنس بلا لی پھر اپنی ہی بلائی گئی کانفرنس میں شرکت بھی نہ کی ،نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نہ تو عربوں کے ساتھ قریبی اتحاد برقرار رکھ سکا اور نہ ہی عرب مخالف بلاک کا حصہ بن سکا ،جو جگ ہنسائی ہوئی وہ الگ ،افغانستان میں طالبان حکومت کی حد سے زیادہ حمایت نے بھی مغرب و امریکہ کے رویوں کو بدلنے میں کردار ادا کیا ہے ۔
    کورونا کی وباء میں تحریک انصاف کی حکومت نے بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کیا جس سے معیشت پر وہ منفی اثرات مرتب نہ ہوئے جن کے خدشات تھے یا خطے کے دیگر ممالک نے جن کا سامنا کیا ،ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وباء کی روک تھام کیلئے بہترین پالیسی اپنانے والے ممالک میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے ،پاکستان میں سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی سود مند ثات ہوئی جس کی وجہ سے ملکی برآمدات بالخصوص ٹیکسٹائل کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جس کے معیشت پر قدرے مثبت اثرات مرتب ہوئے ،صحت کارڈ یا ہیلتھ انشورنس بھی تحریک انصاف کے دور اقتدار کا اہم کارنامہ تصور کیا جاتا ہے ،اس کے ذریعے لاکھوں روپے کے علاج کی سہولت 8کروڑ افراد کو مہیا کی گئی ہے جو ملک کے سرکاری و نجی ہسپتالوں سے دستیاب ہے ،اگرچہ یہ ایک بہترین منصوبہ ہے مگر اسے غیر دانشمندانہ انداز میں پروان چڑھا کر اس کی افادیت گم کردی گئی ہے ،بلا امتیاز کروڑوں افراد کو یکمشت سہولت فراہم کرنے سے ہسپتالوں پر حد سے زیادہ دبائو ڈال دیا گیا ہے جس سے علاج معالجے میں سست روی کے ساتھ ساتھ اس پروگرام کیلئے درکار اخراجات کی فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور لا محالہ اس کا خمیازہ عام لوگوں کو ہی بھگتنا پڑے گا اور وہی لوگ متاثر ہوں گے جو مالی مشکلات کے باعث ہسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے ،اگر یہ سہولت صرف حقداروں تک محدود رکھی جاتی تو یقینا موثر ثابت ہو سکتی تھی ۔
     'نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی' کا قیام بھی تحریک انصاف کی حکومت کے نمایاں اقدامات میں سے ایک ہے جس کے تحت کئی شہروں میں مکانات کی تعمیرات شروع کی گئیں،اسی منصوبے کے تسلسل میں حکومت نے تعمیراتی شعبے کے فروغ کیلئے سرمایہ کاروں کو سہولیات دیں جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے مگر اس منصوبے کے نتائج بھی عام آدمی تک نہیں پہنچ پائے اور اب یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے ،اسی طرح بلین ٹری منصوبہ تحریک انصاف کی ایک واضح کامیابی کہا جا سکتا ہے جسے عالمی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہوئی اور دنیا کے کئی ممالک نے اس منصوبے سے متاثر ہو کر اپنے اپنے ملک میں اس طرح کے منصوبے شروع کئے ،اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے بھی اس منصوبے کی تعریف کی اور اسے اہمیت دی ،اس کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت میں اداروں کے سربرہان کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا ،وفاقی وزارتوں میں ای آفس کا استعمال شروع کردیا گیا ہے جبکہ ریلوے، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن، پاکستان اسٹیل ملز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، مسابقتی کمیشن، کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں اصلاحات کیلئے بھی کام کیا گیا ہے  لیکن اداروں میں کی جانے والی اصلاحات کے نتائج عوام تک پہنچنے میں یا ان کے اثرات مرتب ہونے میں ایک مدت درکار ہوتی ہے جس کے بعد ہی ان کے مثبت یا منفی نتائج سامنے آ سکتے ہیں 
    تحریک انصاف کی حکومت احساس پروگرام کو اپنی ایک بڑی کامیابی تصور کرتی ہے جس کے تحت مختلف پالیسی منصوبوں کا اعلان کیا گیا جن میں بلاسود قرضوں کی فراہمی اور ہنرسازی کے پروگرام شامل ہیں جبکہ خواتین کیلئے انکم سپورٹ پروگرام اور بے سہارا افراد کیلئے پناہ گاہوں کا قیام بھی اس میں شامل ہے ،جہاں تک بات قرضوں کی ہے تو پاکستانی بینکوں کا نظام اور رویہ بلاسود قرضوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا اور ایسے منصوبوں سے عام عوام کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ،دوسری جانب وفاقی دارلحکومت یا پنجاب کے چند شہروں میں قائم پناہ گاہیںکسی قابل ذکر تعداد کو سہولت فراہم کرنے سے قاصر ہیں اور جہاں تک بات انکم سپورٹ پروگرام کی ہے تو حکومت کی جانب سے تقسیم کی گئی رقوم کا بڑا حصہ غیر مستحق افراد کو ملتا ہے اور حقیقی مستحق افراد کی کثرت اس سے محروم ہی رہتی ہے ،کڑی چھان بین اور حق داروں کا انتخاب جب تک ٹھوس بنیادوں پر نہیں کیا جاتا ایسے منصوبوں کی شفافیت برقرار نہیں رکھی جا سکتی ۔
    مجموعی طور پر تحریک انصاف کی حکومت کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوئی اور ملکی مسائل میں مزید اضافہ ہواہے لیکن اگر اس کی وجوہات تلاش کی جائیں تو ،2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹوں کی تقسیم سے لیکر وفاقی کابینہ کے قیام تک اور پھر اس میں بار بار ردوبدل تک کہیں بھی کوئی ٹھوس پالیسی دکھائی نہیں دی ،موثر فیصلہ سازی کے فقدان نے تحریک انصاف کی حکومت کو ناکامیوں سے دوچار کیا ،پنجاب کی صورتحال کو ہی دیکھ لیں عثمان بزدار جیسا شریف مگر ناتجربہ کار وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ اور اپنی جماعت کی جانب سے سخت تنقید کے باوجود فیصلہ برقرار رکھنا عمران خان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک شمار کی جارہی ہے بلا شبہ اس عاقبت نا اندیش فیصلے نے تحریک انصاف کو اندرونی خلفشار میں مبتلا کیا اور جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر اپنی طاقت بھی کھو بیٹھی جس کے مضر اثرات کا سامنا  عمران خان کو آمدہ انتخابات میں کرنا پڑے گا ۔


 

بشکریہ اردو کالمز