259

سیاسی پولرائزیشن کا الائو

زوال یہ ہے کہ کار سیاست دلوں میں نفرت بونے کا عمل بن کے رہ گیا ہے۔ معاشرہ سیاست کی بنیاد پر جتنا تقسیم اب ہے شاید پہلے کبھی نہ تھا ۔سیاست میں نفرت اور ذاتی عناد پر مبنی دشنام طرازی کا کلچر تیزی سے بڑھ رہا ہے اس نے سیاسی پولرائزیشن کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کے لیے لوگ تیار نہیں۔۔سیاسی مکالمے پر کوئی یقین نہیں رکھتا، بس نہیں چلتا کہ باتوں کے گھونسے بنا کے مخالف کو ڈھیر کردیں۔ سیاسی پولرآئزیشن کے بڑھنے اور آپس میں عدم برداشت کے بھڑکتے ہوئے الاؤ کی اہم وجہ سوشل میڈیا کا بے محابا استعمال ہے۔معاشرے کا ہر شخص سوشل میڈیا پر اپنے سیاسی خیالات اور سیاسی وابستگیوں کا اظہار کرنا فرض عین سمجھتا ہے۔سیاسی وابستگی کا اظہار کرنا برا نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کلچر یہ ہے کہ اپنی سیاسی وابستگی کا اظہار سیاسی مخالفین کو گالی اور طعنے دے کر لیا جاتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنا سوشل میڈیا سیل بنا رکھا ہے جہاں ان کی سوشل میڈیا بر یگیڈ اپنے سیاسی مخالفین کے پرخچے اڑانے میں مصروف رہتی ہے۔گالم گلوچ الزام تراشی کرنا سیاسی مخالفین کی زندگیوں کو سکنڈلائز کرنے اور ان کی تصاویر کو فوٹو شاپ کے ذریعے نامناسب انداز میں جوڑ کر میڈیا پر ان کی تشہیر کرنا یہ سب سوشل میڈیا پر اب ایک عام سی بات ہے۔اب اسی گند کا نام کار سیاست ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل کی انہی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا کو گٹر بنا کر رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنی سیاسی جماعتوں کی حمایت میں ہمہ وقت سربکف رہنا صرف سیاسی جماعتوں کے پے رول پر کام کرتے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ تک ہی محدود نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر دیکھیں تو ہماری عام گھریلو خواتین جنہیں عمومی طور پر سماج کے گوناگوں فکری اور نظریاتی پہلوؤں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ بھی سوشل میڈیا کے تھڑے پر اسی قسم کی منفی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ۔ جس سے خاندانوں میں بھی سیاسی پولرائزیشن کو ہواملتی ہے، تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔دل میلے ہوجاتے ہیں۔ جو افراد اس قسم کی منفی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں اس سے ان کی سیاسی جماعت کو فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن ان کے اپنی ذات اور ان کے اپنے ذاتی تعلقات کے دائرے کو ضرور نقصان پہنچتا ہے کیونکہ لوگ اب ایک دوسرے کو سیاسی وابستگی کے حوالے سے پہچاننے لگے ہیں۔ جب صورتحال یہ ہو کہ آپ کی سیاسی وابستگی آپ کی سماجی شناخت بننے لگے تو سمجھ لیں کہ معاشرے میں سیاسی وابستگی پر مبنی تقسیم خطرناک ہو چکی ہے۔معاشرہ جو ایک وحدت کی علامت ہے اس کے اندر ایک ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ تنوع میں خوبصورتی ہے ۔ کائنات میں رنگا رنگی ہے۔ہر شے کی ضد اس کے مقابل موجود ہے۔ نظریاتی اختلافات ہونا ایک فطری چیز ہے۔ مگر تمام تر نظریاتی اور مسلکی اختلافات کے باوجود جب تک معاشرہ ایک وجود کی طرح سے سانس نہیں لیتا یا کچھ بنیادی چیزوں پر متحد نہیں ہوتا وہ ارتقا کی طرف نہیں جاتا ،اس میں بہتری کا رجحان پیدا نہیں ہوتا۔ مثبت رحجانات پروان نہیں چڑ ھیں گے۔ معاشرے کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک تسبیح کے مختلف رنگوں کے دانے دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں ۔ وہ دھاگا ان کو متحد رکھتا ہے۔مگر سیاسی پولر آئزیشن اس دھاگے کو کمزور کر رہی ہے۔سیاسی مخالفت کی وجہ سے لوگ اپنے سیاسی مخالفین کو غدار اور ملک دشمن کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔اس سے سوسائٹی میں تشکیک اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔جمہوری معاشرے میں مختلف سیاسی جماعتیں مختلف نظریات کے ساتھ مختلف منشور کے ساتھ عوام کے سامنے آتی ہیں اور عوام اس بنیاد پر اپنی سیاسی وابستگیاں بناتے ہیں۔یہ ایک جمہوری طرز عمل ہے کہ آپ اپنی سیاسی جماعت کو سپورٹ کرتے ہیں اور اپنی سیاسی جماعت کو آپ ملک کے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ سیاسی کارکن اپنی سیاسی جماعت کی ترویج کے لیے شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ سیاست دان اپنی تقریروں میں جمہوری روایات کا ذکر تو بہت کرتے ہیں لیکن کبھی انہوں نے غور بھی کیا کہ جمہوری روایات ہیں کیا ؟ جمہوری روایات میں مکالمہ ہوتا ہے دشنام طرازی نہیں ہوتی۔ جمہوری روایات میں اختلاف کو برداشت کیا جاتا ہے، جمہوری روایات میں اپنی خامیوں کو بھی تسلیم کرنے کی عادت ڈالی جاتی، جب تک آپ اپنی خامی کو تسلیم نہیں کریں گے آپ خود کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔ لیکن جب نام نہاد سیاسی قائدین عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے منشور اور کارکردگی کو فوکس کرنے سے زیادہ مخالف سیاسی جماعت پر الزامات لگا کر اپنے حامیوں میں ان کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کرنے کو سیاست کرنا سمجھنے لگیں وہیں سیاسی پولرائزیشن منفی دائرے میں داخل ہوکر معاشرے کے لیے خطرناک ہوجاتی ہے کیونکہ اس عمل میں سیاست دان اپنے سیاسی مخالفین کو غدار اور ملک دشمن تک قرار دینے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ رجحان ان کے حامیوں کو سیاسی مخالفین کے خلاف اس قدر برانگیختہ کرتا ہے کہ دو سیاسی جماعتوں کے سیاسی ورکروں کا ایک دوسرے کو برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ سیاست میں یہ انتہائی منفی رجحان ہے کہ آپ اپنی کارکردگی بہتر کرنے اور اپنے اندر خوبیاں پیدا کرنے کی بجائے دوسروں کی خامیوں کو اچھالنے میں سب توانائیاں صرف کریں ۔ ایسی منفی سیاست سے ہی سماج سیاسی پولرائزیشن کا شکار ہوتا ہے، قوم تقسیم ہوکر سیاسی جتھوں میں بدل جاتی ہے ۔معاشرہ سمٹاو کی بجائے بکھراؤ کی طرف اور سلجھاؤ کی بجائے الجھاؤ کی طرف جاتا ہے۔سیاسی قائدین کو اپنی لا یعنی تقریروں پر قابو پانا چاہیے تاکہ لوگوں کے دلوں میں نفرت اور عناد پیدا نہ ہو۔ سیاسی پولرائزیشن کے الاؤ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل فی الفور بند ہونے چاہئیںجو سیاست کے نام پر دن رات معاشرے میں نفرت انڈیل رہے ہیں۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز