358

چار آدمی

جگہ ہے فائونٹین ہائوس، لاہور کی مشہور علاج گاہ برائے نفسیاتی امراض ۔خوشگوار موسم، تازہ ہوا، بادل ۔ تین آدمی۔ منفرد، ممتاز، یکتا ، نابغہ روزگارآدمی۔سرگنگا رام، ملک معراج خالد اور ڈاکٹر رشید چودھری بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں۔ ان تین درویشوں کی اس گفتگو کومحور بنا کر کتاب ’’چار آدمی‘‘لکھی گئی ۔یہ تین درویشوں کی کہانی ہے جنہوں نے اپنی زندگی اس دنیا میں خوبصورتی لانے اور دکھوں کوکم کرنے کے لئے وقف کر دی۔ اس کتاب کے مصنف ہی راوی ہیں،ڈاکٹر امجد ثاقب ۔ چوتھے درویش، ویسے ہی منفرد، ممتاز، یکتا شخص ۔ وہی جذبہ، وہی فرزانگی ، وہی شعلہ ۔ ڈاکٹرامجد ثاقب کی کہانی چوتھے درویش کی کہانی ہے۔ یوں یہ جدید قصہ چہار درویش لکھا گیا۔ڈاکٹر امجد ثاقب کی تازہ کتاب ’’چار آدمی‘‘ دراصل عزم وایثار ،سنگلاخ چٹانوں جیسے ارادوں اور قیامت خیز جذبوں کی داستان ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے مختصر سا پس منظر قصہ چہار درویش کا۔ روایت ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاایک بار بیمار پڑے۔ امیر خسرو ان کے چہیتے اور جان نثار کر دینے والے مرید تھے۔ جناب خسرو نے اپنے شیخ کا دل بہلانے کے لئے ایک قصہ سنانا شروع کیا۔ یہ قصہ بڑا دلچسپ تھا، جس میں چا ر درویش باری باری اپنی کہانی سناتے ہیں۔ جناب نظام الدین اولیا صحت یاب ہوئے تو انہوں نے مسرور ہو کر اپنے مرید کی تالیف کے لئے دعا فرمائی کہ جو کوئی اس قصے کو سنے گا، وہ خدا کے فضل سے تندرستی پائے گا۔ یہ قصہ بعد میں قصہ چہار درویش کے نام سے مشہور ہوا۔ سات سو برس پرانا قصہ کوئی ڈیڈھ دو سو سال پہلے اردو کے مشہور ادیب میر امن دہلوی نے اردو میں ترجمہ کیا۔ یہ اردو کی کلاسیک کتابوں میں شمار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنی نئی کتاب کورونا کے دنوں میں لکھی ، جب ڈاکٹر امجد کے پاس وقت اور فراغت میسر تھی ۔انہوں نے اس کتاب کے لئے بہت محنت اور ریسرچ کی ہے۔ ڈاکٹر امجد لکھتے ہیں کہ مجھے بہت شوق تھا کہ سماجی خدمت اور سماج کے لئے کنٹری بیوشن کا جذبہ رکھنے والے یہ تینوںبڑے لوگ اگر اکھٹے ہوتے توآپس میں کیا گفتگو کرتے۔ اپنے اسی تصور کو ڈاکٹرا مجد ثاقب نے مجسم کر دیا ہے۔ یہ کتاب نان فکشن اور فکشن کا حسین امتزاج ہے۔ یہ کتاب فکشن کے انداز میں لکھی گئی۔ مختلف ادوار میں رہنے والے چار آدمی ایک جگہ اکھٹے ہو کر گفتگو کرتے ہیں، یہ فکشن کا حصہ ہے، مگر جو کچھ اس میں بیان کیا گیا، وہ سب حقیقت اوراس لحاظ سے نان فکشن ہے۔ یہ کتاب فکشن اور نان فکشن کے درمیان پُل کے مانند ہے۔ اس کتاب کو بک کارنر جہلم نے اپنے مخصوص حسین انداز میں شائع کیا ہے۔ کہانی کی ابتدا میں راوی(ڈاکٹر امجد ثاقب) بیان کرتے ہیں کہ وہ تینوں گنگا رام، ڈاکٹر رشید چودھری اور ملک معراج خالد بیٹھے باتیں کر رہے تھے، پرمسرت، شاداں، ہنستے مسکراتے۔ میں نے ان سے پوچھا،’’ آپ بہت خوش ہیں؟ ہم تو کچھ ایسے خوش نہیں رہتے، ہماری زندگی تو خوشیوں سے محروم ہے۔‘‘ تینوں نے حیرت سے مجھے دیکھا اور ایک ساتھ کہا،’’ زندگی تو نام ہی خوشیوں کا ہے، اس کی قدر کرو، جینے کا ڈھنگ سیکو تو خوشیاں خود ہی مل جائیں گی۔ ‘‘ ’’ زندگی کیاہے ، اس کی قدر کیسے کرتے ہیں، کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں ؟ ‘‘میں نے سوال کیا۔ اس کے بعد ان تینوں کی کہانیوں میں اسی کلیدی سوال کا جواب پوشیدہ ہے۔ اسے جاننے ، سمجھنے اور لطف اٹھانے کے لئے آپ کو یہ شاندار کتاب پڑھنا پڑے گی۔ کتاب میں موجود آخری کہانی اخوت کے کرشمے کو بیان کرتی ہے، ڈاکٹر امجد ثاقب کے زندگی کے سفر کو ۔اخوت اور اخوت سے لپٹی ہوئی دیگر تروتازہ شاخیں۔ اخوت کلینک، اخوت یونیورسٹی، میک اے ڈریم۔ اور پھر پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ، پنجاب ٹرسٹ فار ڈس ایبل وغیرہ وغیرہ ۔ کتاب میں بیان کئے گئے چاروں کرداروں میں بعض باتیں مشترک ہیں۔چاروں لاہور سے محبت کرتے ہیں۔لاہور ان کی زندگیوں میں رچا بسا ہے۔سر گنگا رام خوش نصیب تھے کہ نئے لاہور کی تخلیق کی۔ لاہور کا حسین ترین زمانہ انہوں نے دیکھا۔ معراج خالد اور ڈاکٹر رشید چودھری نے بھی لاہور کا خوبصورت پرسکون دور دیکھا۔ ڈاکٹر امجد کے مقدر میں آج کے لاہور کو دیکھنا لکھاتھا۔ کنکریٹ، جنگلوں سے لبریز شہر، بے پناہ ٹریفک ماحولیاتی آلودگی ، شور ، بصری بدصورتی۔ گورنمنٹ کالج بھی ان میں سے تین کی زندگیوں کا حصہ رہا۔ چاروں درویشوں کی زندگی کا سب سے اہم اور مشترک نکتہ خلق خدا کی خدمت اور عام آدمی سے جڑت ہے۔ سرگنگا رام لاہور کے رئیس تھے، بے شمار بلڈنگز انہوں نے بنائی۔ عام آدمی، غریب آدمی، غریب بیوائوں کے لئے انہوں نے بہت کچھ کیا۔ جہاں آج فائونٹین ہائوس ہے، وہاں سر گنگارام نے ہندو بیوائوں کے لئے ادارہ بنایا تھا۔ ڈاکٹر رشید چودھری نے فائونٹین ہائوس جیسا بڑا خیراتی ادارہ قائم کیا، جہاں سے ہزاروں لاکھوں نفسیاتی امراض کے مریض صحت یاب ہوئے۔ معراج خالد درویش سیاستدان تھے، ہمیشہ عام آدمی، عام کارکن سے جڑے رہے۔فائونٹین ہائوس منصوبے کی منظوری بطور وزیراعلیٰ معراج خالد نے دی تھی۔ ڈاکٹرا مجد ثاقب آج کل فائونٹین ہائوس کے سربراہ ہیں، اخوت کی طرح انہوں نے فائونٹین ہائوس کے لئے بھی بہت کچھ کیا۔ چار آدمی اس بے پناہ آدمی سر گنگا رام سے بھرپور تعارف کراتی ہے۔ کیا شاندار حصہ ہے وہ۔ یہ کتاب ملک معراج خالد کی زندگی کے کچھ غیر معروف گوشوں سے ہمیں ملواتی ہے۔ ڈاکٹر رشید چودھری کی خدمات سے بھرپور تعارف ہوتا ہے۔ اسی کتاب سے پتہ چلا کہ سرگنگارام نے گنگا نگر کے نام سے ماڈل گائوں بنایا تھا جہاں اس دور میں بہت سی جدید سہولتیں موجود تھیں، جہاں گھوڑا ٹرین کی طرح بھی ڈالی گئی۔ سرگنگا رام کی زرعی اصلاحات اور تجاویز کا علم ہوا، اس پر ان شااللہ کسی اور نشست میں بات کریں گے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اچھا بولتے اور بہت عمدہ لکھتے ہیں، ان کی نثر خوبصورت اور دلآویز ہے۔ اس کتاب میں بھی جگہ جگہ نہایت شاعرانہ نثر کے ٹکڑے موجود ہیں۔ اردو کے لیجڈ مدیر، فکشن نگار جناب شکیل عادل زادہ (مدیر سب رنگ)نے اس کتاب پراپنی رائے میں لکھا:’’وہ جو کہا جاتا ہے کہ تحریر میں کیا بہائو ہے، کوئی ندی جیسے خراماں خراماں رواں ہے، تحریر ہے کہ کوئی کہانی ہے۔ پڑھتے جائوپڑھتے جائو ، کہانی ختم ہوجائے ، تجسس وتاثر ختم نہیں ہوتا۔ کچھ حاصل کرنے کی آسودگی سے تحریریں ممتاز ہوتی ہیں۔ بعض تحریروں کے نقش دوامی ہوتے ہیں اوربعض کبھی بہت آزردہ وشکستہ بھی کرتی ہیں ۔ تحریریں آئینہ دکھاتی ہیں اور تحریریں نہاں خانے کے دھندلکوں میں اجالوں کا باعث بھی بنتی ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی یہ کتاب امیدیں جگانے،کچھ کرنے، کرگزر جانے کے لئے اپنے قاری کو آمادہ کرتی ہے۔مصنف نے ثابت کیا ہے کہ خاص موضوع، رودادیا سرگزشت نوعیت کی تحریر کو تخلیقی رنگ کس طور دیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کی ذات ہمہ پہلو ایک مثال ہے۔دست رس اور فن کاری اپنی جگہ، مصنف کا درون خانہ تلاطم ، غبار وفشار،اندر کا احساس بھی تو لازم ہے۔ کہتے ہیں زندہ تحریریں تبھی وجود میں آتی ہیں۔ڈاکٹرامجد ثاقب کے عزم اور یقین ، نیت کی صداقت اور شفافیت کے بغیر ان کی تحریر میں دل گیری ودل پزیری شائد ممکن نہ ہوتی۔ ‘‘ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کتاب میں امریکن یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی کے ایک پروفیسر کا قصہ لکھا ہے، ان سے پوچھا کہ لیڈرشپ کیا ہے۔ پروفیسر نے جواب دیا، میرے پاس اس کا جواب نہیں، مگر یاد رکھو لیڈر دو کام کرتا ہے ۔ پہلا کام خواب دیکھنا ہے، جسے آج کی زبان میں وژن کہتے ہیں اور دوسرا کام اپنے خواب سے عشق ہے ۔ وہ خود کو اپنے خواب کی تعبیر کے لئے وقف کر دیتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ خواب کیسے دیکھے جاتے ہیں، خواب دیکھنا آسان کام نہیں۔ وہ کہنے لگے: سماجی شعور، فہم وفراست، سیاسیات کا علم ، تاریخ، فن ، شاعری، ذاتی فتح، شکست، مشاہدہ، مذہب، دین، عقیدہ ، دوست ، ہمسائے ، استاد… یہ سب ہمارے لئے مختلف رنگوں کے کچھ دھاگے ڈھونڈتے ہیں اور پھر ہم ان دھاگوں سے اپنے لئے خواب بنتے ہیں۔ ایک جولاہے کی طرح جو سوت کی اٹی سے کپڑا تیار کرتا ہے ۔ ایک مصور کی طرح جو بیسوں رنگ اکھٹے کر کے تصویر بناتا ہے ، نگاہوں میں بس جانے والی۔ خواب دیکھنے کے بعد خوابوں سے عشق کا مرحلہ آتا ہے۔ تعبیر اپنے مقصد سے عشق کے بغیر نہیں ملتی۔ پھر پروفیسر نے پوچھا کہ کیا واقعی جاننا چاہتے ہو کہ لیڈر شپ کیا ہے؟ میرے ہاں میں جواب پر بولا:ایسا ہے تو کچھ دیر کے لئے کتابیں بند کر دو، صرف خواب دیکھو اور پھر خود سے عہد کرو کہ یہ خواب پورے کرو گے، ہر قیمت پر۔ خواہ سرتاپا چھلنی ہونے لگو۔ خواہ کانٹوں پر چلنا پڑے ، دست وپا بیکار ہوجائیں، زندگی دم توڑنے لگے۔ ’’ تعیبر پا کر رہوں گا‘‘ یہی عزم لیڈرشپ ہے ۔ اس کے لہجے میں یقین تھا۔ میں نے اس کی بات مان لی، کتابیں بند کر دیں اور خواب بننے لگا۔ تاریخ کا شعور، سماجی شعور، علم، سیاسیات، فن، شاعری، فتح، شکست، مشاہدہ ، مذہب ، دین، عقیدہ، دوست، ہمسائے، استاد … ایک طویل وقت گزرا اس اس کے نتیجے میں جو تصویر بنی۔ اس کا نام اخوت ہے ۔ ایک اور دنیا کی تصویر، ایک اور افق کی تلاش، صعوبتیں، راحتیں، مشکلیں اور پھر ایک ایسا جنت نظیر منظر سامنے آیا ، جسے دنیا نے تسلیم کیا۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز