289

خود غرضی

اس وقت جنوبی ایشیا کے تمام ہی ممالک معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ بھارت گوکہ اس خطے میں معاشی اور صنعتی ترقی میں سب پر ہی سبقت رکھتا ہے اب اس وقت معاشی پریشانی کا شکار ہے۔

دوست ملک سری لنکا کی معاشی ابتری ہم تمام پاکستانیوں کے لیے باعث تشویش ہے مگر اسے کیا کہا جائے کہ خود ہمارا ملک اس وقت معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور ہمارے ہی ایک ماہر معاشیات شبر زیدی کے مطابق 2023 کے بعد پاکستان کی معاشی حالت سری لنکا سے بھی بدتر ہو سکتی ہے، ویسے تو اس وقت کورونا نے پوری دنیا کی ہی معیشت کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے مگر اس تناظر میں پاکستان کا ریکارڈ قابل تعریف کہا جاسکتا ہے کہ یہاں نہ معاشی جمود ہوا اور نہ ہی صنعتوں اور کاروبار کی بندش عمل میں آئی۔

اس اعتبار سے تو ضرور پاکستان قابل قدر کارکردگی سے سرفراز ہوا مگر یہاں تو کورونا سے پہلے سے ہی ملک معاشی بدحالی کا شکار تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو باہری قرضوں کو ادا کرنے کے لیے اسے فنڈز کی کمی کی وجہ سے آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف نے جیسے تیسے قرض تو دے دیا مگر نئے وزیر خزانہ کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے آئی ایم ایف کے سامنے کیس صحیح طور پر پیش نہیں کیا جاسکا۔

آئی ایم ایف کی انتظامیہ نے ہمارے اس وقت کے وزیر خزانہ کے سامنے قرض دینے کے لیے ایسی خطرناک شرائط رکھیں جو ہماری کسی سابقہ جمہوری حکومت کے لیے بھی قابل قبول نہ ہوتیں۔ موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی یہی کہا ہے کہ جن شرائط پر قرض لیا گیا ہے وہ نہایت ہی سخت ہیں ان کو پورا کرنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا مگر جلد بازی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے انھیں قبول کرلیا گیا۔ اب اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک میں مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافے کا رجحان عوام کے لیے وبال جان بن گیا ہے۔

عام لوگ مہنگائی تلے دب کر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عام لوگ حکومت سے ناراض ہیں۔ ایسے ماحول میں حزب اختلاف کو اپنی سیاست کو جگانے کا نادر موقعہ ہاتھ آگیا ہے اور انھوں نے حکومت کو گرانے کے لیے اب تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے۔

عمران خان کی حکومت کی یہ بدقسمتی ہے کہ اسے شروع میں قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے دوسری سیاسی پارٹیوں کے الیکٹیبلز کو اپنے ساتھ ملانا پڑا ساتھ ہی دیگر سیاسی پارٹیوں کو بھی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دینا پڑی۔ ان سیاسی پارٹیوں نے حکومت میں شامل ہوتے وقت اپنے مطالبات عمران خان کے سامنے رکھے تھے۔ جنھیں پورا کرنے کا خان صاحب نے وعدہ کرلیا تھا مگر اب ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد بھی اتحادی پارٹیوں کے مطالبات کو پورا نہ کیا جاسکا۔

اب جب کہ حالات حکومت کے لیے ناموافق ہوگئے ہیں اور اسے اپنے وجود کو قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے اتحادی پارٹیاں حکومت کو آنکھیں دکھا رہی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست ہمیشہ ہی خلفشار کا شکار رہی ہے۔ سیاستدانوں کی کبھی آپس میں نہیں بنی ہے وہ ہمیشہ ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہے ہیں اور ان کی اس کھینچا تانی کی وجہ سے ملک کا نظام اکثر درہم برہم رہا ہے جسے سنبھالنے کے لیے آخر غیر جمہوری قوتوں کو ہی آگے آنا پڑا ہے۔

اس حقیقت سے بھی کون انکار کرسکتا ہے کہ جب بھی ملک میں مارشل لا لگا ہے تو اسے لگوانے میں ہمارے سیاستدانوں نے ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب اگر دیکھا جائے تو پھر ویسے ہی حالات بنا دیے گئے ہیں سیاستدان جمہوریت کا گلا گھونٹنے میں لگے ہوئے ہیں وہ اس وقت صرف اپنے اقتدار کی سوچ رہے ہیں انھیں ملک و قوم کا کوئی خیال نہیں ہے۔ کاش کہ حکومت اور تمام سیاستدان غور کریں کہ دنیا کے کیا حالات ہیں اور ملک کس مشکل میں پھنسا ہوا ہے مگر تمام ہی ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کے بجائے اپنی من مانی اور انا کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔

حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کی مشکلات کا حل نکالے مگر ان کی شکایات کو دور کرنے کے بجائے یہ تو کہا جا رہا ہے کہ ’’آپ کو گھبرانا نہیں ہے‘‘ تاہم اس کے تدارک کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہونے سے اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ایسے حالات میں اسٹریٹ کرائمز، چوریوں اور ڈاکوں میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے ساتھ ہی خودکشیوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آج کل سڑکوں پر سفید پوش افراد بھی بھیک مانگتے نظر آ رہے ہیں۔

ایک طرف عوام کے یہ حالات ہیں تو دوسری جانب حکومت مطمئن نظر آ رہی ہے کہ اس کے مطابق ملک ترقی کی جانب گامزن ہے کیونکہ ملکی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے اور بیرونی ممالک سے پاکستانیوں کی بھیجی جانے والی ترسیلات زر روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر مہنگائی کو کیوں کنٹرول نہیں کیا جاتا؟ عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول اب بھی کیوں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس وقت جب کہ عوام سخت مشکلات کا شکار ہیں حکومت اور حزب اختلاف میں اقتدار کی جنگ جاری ہے۔

حزب اختلاف دعویٰ کر رہی ہے کہ اسے اسمبلی میں برتری حاصل ہوگئی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی حکومتی ارکان حزب اختلاف سے آ ملے ہیں ادھر حکومت کے اتحادی بھی حکومت کو آنکھیں دکھا رہے ہیں ان کے رہنما موقع غنیمت جان کر اپنے مطالبات کو حکومت سے منوانے میں پورا زور لگا رہے ہیں۔ (ق) لیگ جو ہمیشہ عوام کی پریشانیوں کی بات کرتی ہے اس کے سربراہ پرویز الٰہی حکومت اور حزب اختلاف دونوں سے اپنے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ مانگ رہے تھے۔ اس سلسلے میں متحدہ حزب اختلاف کی آرا بٹی ہوئی دیکھ کر وہ حکومتی پیشکش کو قبول کرچکے ہیں حکومت نے بزدار کو مستعفی کرا کے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا اہم عہدہ پرویز الٰہی کو دے دیا ہے تاکہ حزب

اختلاف کو شکست دی جاسکے۔ اسی طرح کراچی میں ایم کیو ایم کے رہنما بھی حکومت اور متحدہ حزب اختلاف سے سندھ کی گورنری اور وزارتوں کی فرمائش کرنے کے بجائے صرف کراچی اور سندھ کے شہری مسائل کو حل کرنے کی بات کرتے تو نہ صرف ان کا ووٹ بینک مزید بڑھتا بلکہ شہری علاقوں کے عوام سکھ کا سانس لیتے۔

بشکریہ ایکسپرس