78

سیاست کی یہ ’’خوبصورتی‘‘ !

گزشتہ ایک ماہ کے دوران پاکستانی سیاست کی جو ـ’’خوبصورتی‘‘ دیکھی اُس کا اخلاقیات سے قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ سیاست میں کوئی اصول نہیں، بس اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے جس کے لیے سیاستدانوں میں ریس اس بات کی لگی ہے کہ کون کتنا گرتا ہے۔

 جتنا مرضی گریں لیکن اپنا مقصد کسی بھی صورت میں حاصل کریں۔ گراوٹ اور اخلاقی پستی کی کسی کو پریشانی نہیں اور میڈیا بھی یہ سب کچھ یہ کہہ کر ایک طرف رکھ دیتا ہے کہ سیاست کا اخلاقیات سے کیا تعلق۔

افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ کسی ایک سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کی محبت یانفرت میں ہم میڈیا والے بھی بُری طرح بے نقاب ہو چکے ہیں اور بہت کچھ جانتے ہوئے بھی صرف وہیبات کرتے ہیں جو ہمارے مخالف کے خلاف جاتی ہے۔

سیاستدانوں کے ووٹرز، سپورٹرز اور میڈیا کو سننے والے بھی اپنی اپنی مرضی کے سیاستدانوں اور صحافیوں کو ہی دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ گزرے دنوں میں سیاستدانوں، چاہے اُن کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے،کو دن رات ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کرتے دیکھا۔

نہ نیند پوری کی، نہ کھانے پینے کا خیال۔ حکومت کو اپنی کرسی بچانے اور اپوزیشن کو عمران خان کی کرسی گرانے کا جنون تھا۔ گزشتہ رات کو کوئی دو تین بجے اپوزیشن حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملانے اُن کے پاس پہنچ گئی اور ایک معاہدہ بھی طے پا گیا۔ جب اپوزیشن والوں کی واپسی ہوئی تو حکومتی وفد ایم کیو ایم کے پاس پہنچ گیا تاکہ جو وہ مانگیں اُنہیں دے کر حکومت کے حق میں اعلان کروا دیں۔

سیاستدانوں کے درمیان اقتدار کی اس جنگ جس میں اخلاقیات اور اصولوں کا جنازہ نکل رہا ہے، کو دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ جتنی محنت یہ سیاستدان اپنے اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے کر رہےہیں، اس کا آدھا بھی اگر وہ اس ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشش کریں تو اس قوم کا مستقبل سنور سکتا ہے۔

ذاتی مفادات اور کرسی کے لیے اپنے بدترین مخالف کو گلے لگانے کے لیے تو یہ سیاستدان ہمیشہ تیار رہتے ہیں اور یہ سب کچھ عوام نے ان دنوں دیکھا لیکن جب ان سے کہا جائے کہ خدارا اس ملک کی معیشت، اچھی طرز حکمرانی، میرٹ، قابلِ اعتبار نظام احتساب، ادارہ جاتی ریفارمز، نظام انصاف میں جلد انصاف کی فراہمی کے لیے مل کر بیٹھ جائیں، کوئی اس سلسلے میں میثاق کر لیں، قوم کی خاطر اتفاق رائے پیدا کر لیں تو یہ ایک دوسرے کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔

ایسا نہیں کہ صرف عمران خان اپنی ضد اور غصہ کی بنیاد پر اپنے دور حکومت میں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکاری رہے، پہلے بھی قومی نوعیت کے معاملات میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے مابین اختلافات ہی رہے۔

باوجود اس کے کہ نیب نے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو ڈسا پھر بھی اعلانات کے باوجود احتساب کے لیے کوئی متفقہ نظام نہیں لاسکے۔ ماضی میں کہا جاتا رہا کہ خدارا کم از کم پاکستان کی معیشت کے لیے ہی آپس میں چارٹر آف اکانومی کر لیں لیکن ایسا تو ماضی میں بھی نہ ہوا۔

عمران خان نے اپنے اقتدار کے لیے اپنے کون کون سے اصول قربان نہیں کیے؟ ان کے پاس تو بہت اچھا چانس تھا کہ اپوزیشن کو ساتھ بٹھا کر کم از کم قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کرتے لیکن خان صاحب نے تو اپنا سارا دور اپنے مخالفین سے لڑتے لڑتے گزار دیا۔ مجھے ڈر ہے کہ موجودہ اپوزیشن جس نے آئندہ حکومت بنانی ہے وہ اتنے سارے اتحادیوں کے ساتھ کیسے چلے گی۔

شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے اور زرداری صاحب اور نجانے کتنے اتحادی اُن کو دل و جان سے پاکستان اور عوام کی خاطر سپورٹ کریں گے۔ ایسا مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ اللہ کرے میں غلط ثابت ہوں۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم