101

ایک اور’’نیا پاکستان‘‘؟

عمران خان کے حامیوں کی چند ایک خصوصیات بھی ہیں۔میں پہلے یہ واضح کرتا چلوں کہ یہاں حامیوں سے میری مراد وہ لوگ نہیں ہیں جنہوں نے عمران خان کو آزمانے کیلئے اُنہیں ووٹ دیا، نہ ہی وہ خلائی ووٹر مراد ہیں جو خلائی مخلوق کے لائے ہوئے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں بلکہ اصل حامی وہ لوگ ہیں جو ایک طویل عرصہ سے پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہیں اور یہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ عمران خان کے علاوہ کوئی اور پاکستان کو نہیں بچا سکتا۔

 جو یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے علاوہ کوئی اور پاکستان کیلئے موزوں نہیں ہے۔ جنہیں یہ پروا نہیں کہ گورننس یا معیشت کیسی ہے؟جو ایمان کی حد تک یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف عمران خان ہی پاکستان کے نجات دہندہ ہیں۔عمران خان کے دورِ اقتدار میں جب گورننس بری ہوئی اور معیشت خراب ہوئی، تو اِن لوگوں نے تکلیفیں برادشت کرنے کو ترجیح دی اور یہ تاویل پیش کرنے لگے کہ عمران خان اپنی ذات میں بالکل ٹھیک ہیں ، ساری خرابیاں اُن کے اِرد گرد موجود افراد میں ہیں اور اِس طرح اُنہوں نے عمران خان کو تمام الزامات سے بری الزمہ قرار دے دیا۔

ملک میں جب تحریکِ عدم اعتمادکا آغاز ہوا تو تحریک انصاف کے حامیوں نے یہ عدم اعتماد کو حکومت سے زیادہ عمران خان کی ذات کیخلاف سمجھا، اِس لیے عمران خان کے حامی زیادہ جوش و خروش سے اُن کیساتھ کھڑے ہو گئے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ عمران خان کی ذات میں اِس قدر گم ہو چکے ہیں اور عمران خان حزبِ اختلاف کے حوالے سے جو باتیں کرتے ہیں اُن پر ایسا پختہ یقین لا چکے ہیں کہ اُن کیلئے اب پیچھے ہٹنا شاید ممکن نہیں رہا۔ یہاں تک کہ عمران خان کے حامی شیخ رشید احمد کی تحریک انصاف کی حمایت کرنے کے بعد ،شیخ صاحب کے حق میں بھی زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگے، جن کے بارے میں خود عمران خان بھی پتا نہیں کیا کچھ کہہ چکے ہیں۔

مجھے یہاں کینیڈا میں خان صاحب کا ایک پڑھا لکھا حامی ملا جس کا کہنا تھا کہ اگر اُس کیلئے دو لوگوں کو قتل کرنا جائز ہوتا تو وہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو قتل کرتا۔ جب میں نے اُس سے پوچھا کہ تم ایسا کیوں سوچتے ہو ؟تو اُس نے کہا دونوں چور ہیں، ڈاکو ہیں، دونوں نے ملک تباہ کر دیا ہے۔ جب میں نے اُسے دلائل کے ساتھ گفتگو کرنے کا کہا تو وہ محض اِس چور ڈاکو کی گردان کے آگے نہ بڑھ سکا۔ جب کوئی شخص کسی دوسرے میں اِس قدر مگن ہو جاتا ہے تو اُس کیلئے پھر پیچھے ہٹنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔

عمران خان اور اُن کی ٹیم نت نئے بیانیے بنانے میں ماہرہے۔ اِس مرتبہ عمران خان کے حامیوں نے حکومت کی غیر تسلی بخش کارکردگی، معاشی بدحالی، ناقص گورننس اور مہنگائی سے توجہ ہٹانے کیلئے کرپٹ بمقابلہ عمران خان کا بیانیہ متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔ اُنہوں نے اپنے بیانیہ میں اپنے ضمیر کی آواز پر غیر تسلی بخش کارکردگی دکھانے والوں کو ووٹ دینے والوں کو پیسے لے کر ووٹ دینے والوں اور ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں پر برتری دلائی ہے

پھر ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر اِس عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے اِس طرح کے بیانات اور تجزیے سامنے لائے گئے کہ کوئی اہم ترین فیصلہ ہو چکا ہے، سارا معاملہ نمٹ چکا ہے، بس ابھی اچھی خبر آنے والی ہے۔ وہ دِن آ کر گزر بھی جاتا ہے لیکن اُس اہم خبر کا محض انتظار ہی رہتا ہے۔اتوار کے روز عوام کو جو سرپرائز دیا گیااُس کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ اصل سرپرائزز تو پیر کے روز سامنے آئے۔ لیکن اِس سب سے ایک ہلچل اور عوام بالخصوص تحریک انصاف کے حامیوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اِسی تناظر میں اتوار کے روزایک ریلی نکالی گئی، جس میں 10لاکھ افراد کا جمعِ غفیراکٹھا کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، اُس کی حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد پولیس نے یہ تعداد 60ہزار بتائیہے اور انٹیلی جنس بیورو کا خیال ہے کہ یہ تعداد 26ہزارتھی جبکہ غیرجانبدار ذرائع نے یہ تعداد 35ہزار بتائی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حکومتی مشینری کا استعمال کرکے لوگوں کو اکٹھا کرنے اور اپنی مرضی سے سیاسی جلسوں میں لوگوں کے اکٹھا ہونے میں بڑا فرق ہے۔اِس پاور شوکے پیچھے عمران خان صاحب کی ایک نیا بیانیہ بنانے کی کوشش ہے اور وہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہ ہونے کے باوجود اُنہیں عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔

اگر صرف جلسوں اور ریلیوں میں لوگوں کو اکٹھا کرنے سے حکومت مل سکتی تو اور بھی بہت سارے لوگ حکومت کے دعویدار ہوتے۔ لیکن اِس وقت اِس جلسے ، ریلی اور عوام کا جوش و جذبہ دکھانے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ تحریک عدم اعتماد میں جیت کی صورت میں وہ یہ کہہ سکیں کہ میں عوامی حمایت سے جیتا ہوں اور ہارنے کی صورت میں وہ ’’کرپٹ مافیا‘‘ کو اپنی ہار کا ذمہ دار ٹھہرا سکیں۔یہ بیانیہ اُن کے حامی نہ صرف مانیں گے بلکہ پُر جوش انداز میں اِس کا خیر مقدم بھی کریں گے۔ تحریک انصاف کو یہ فائدہ بھی حاصل ہے کہ اُس کے حامی باقی جماعتوں کے حامیوں سے زیادہ بحث مباحثہ کرتے ہیں۔عمران خان کے یہ جوشیلے حامی ایک طویل عرصہ سے اُن کیساتھ ہیں لیکن اِن حامیوں کی تعداد اِتنی زیادہ نہیں کہ وہ پھر سے حکومت تو کیا ایک مضبوط اپوزیشن بھی بنا سکیں۔

آخر میں جلسے چاہے کتنے ہی بڑھے ہوں، شو چاہے کتنا ہی بڑا ہو،اگرچہ عمران خان اِس بار کوئی بڑا سیاسی شو نہیں کر سکےتو سوال پارلیمنٹ میں حاصل ووٹوں کی گنتی کا ہے، معیشت کا ہے، ملک میں استحکام کا ہے، اور مستقبل کے پاکستان کا ہے۔ اب پھر سے ایک اور ’’نئے پاکستان ‘‘ کے باتیں کر کے ساڑھے تین سال پہلے بنائے جانے والے ’’نئے پاکستان ‘‘ کو بھلانے کی کوشش کی جائے گی اور اِس بیانیے کا مقصد اپنے حامیوں کی توجہ اپنی غلطیوں سے ہٹا کر اپوزیشن کی طرف کرنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے حامی ایک مرتبہ پھر سے ’’نئے پاکستان‘‘ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جائیں۔لیکن 22کروڑ عوام، جنہوں نے اِس حکومت کے گزشتہ ساڑھے تین سال ، دو وقت کی روٹی سے محروم رہ کر یہ سن کے گزارے ہیں کہ پاکستان بڑی ترقی کر رہا ہے، معیشت بڑی آگے جا رہی ہے، عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ اور نیوٹرل الیکشن میں اِس بیانیے کا چلنا بہت مشکل ہوگا۔میں ہمیشہ یہ کہتا آیا ہوں کہ اگر عمران خان کی حکومت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتی تو اپوزیشن کی سیاست ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتی۔ لیکن اپنی ناقص کارکردگی سے اِس حکومت نے نہ صرف اپوزیشن کے بیانیے میں جان ڈال دی ہے بلکہ پاکستان کے سیاسی نظام کو نیوٹرل بھی بنا دیا ہے۔ مزید یہ کہ وہ عوام میں اپوزیشن کے بارے میں جو کچھ بولتے چلے آئے ہیں ، اُس کی بھی تلافی ہوئی ہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم