73

پاکستان، ترکی اور ڈیموکریسی

پاکستان سے جب بھی کوئی پارلیمانی وفد ترک پارلیمنٹ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے، اپنے روابط کو فروغ دینے اور مذاکرات کی غرض سے ترکی پہنچتا ہے تو دونوں ممالک کی ایوانِ پارلیمان، اراکینِ پارلیمنٹ اور دونوں ممالک میں ڈیموکریسی پر عمل درآمد کرنے کے بارے میں تقابلی جائزہ لینے کا موقع میسر آتا ہےکیونکہ ترکی اور پاکستان عالمِ اسلام میں دو ایسے ممالک ہیں جو اپنے تئیں، اپنے رسم و رواج، ثقافت اور سماجی حالات کے مطابق ڈیمو کریسی پر عمل کررہے ہیں۔تاہم دونوں ممالک میں کئی بار فوج سول حکومت کا تختہ الٹ کر ڈیموکریسی کا بوریا بستر گول بھی کرچکی ہے۔ترکی میں سول حکومت کا تختہ الٹنے کی آخری کوشش 15 جولائی 2016 ء میں ناکام بنائی گئی تھی جبکہ پاکستان میں مشرف نے نواز شریف کی سول حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے دس سال تک اپنی گرفت قائم رکھی۔ اب ان دونوں ممالک میں ڈیمو کریسی پر حالات کے تقاضوں کے مطابق پوری طرح عمل درآمد کیا جا رہا ہے البتہ پاکستان میں جمہوری اداروں کو مکمل آزادی حاصل ہو یا نہ ہو لیکن میڈیا کو آزادی حاصل ہے اور اس معاملے میں پاکستان کو ترکی پر برتری حاصل ہےجبکہ اس کے بر عکس ترکی میں تمام جمہوری ادارے پاکستان کے مقابلے میں مستحکم ہوچکے ہیں۔ اس لیے ہمیں ڈیموکریسی کے بارے میں ترکی سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں فلور کراسنگ کا قانون اگرچہ موجود ہے جبکہ ترکی کی قومی اسمبلی میں اس قسم کا کوئی قانون موجود نہیں ، اس کے باوجود ترکی میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو اپنی جماعت کے اراکین پر مکمل گرفت حاصل ہے اور وہ اپنے قائد کے احکامات پر پوری ایمانداری سے عمل درآمد کرتے ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کا ہفتہ وارپارلیمنٹ کے اندر ہی الگ الگ ہال میں اپنی پارٹی کاباقاعدگی سے اجلاس منعقد کرنا (جبکہ پاکستان میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے ) ہے اورصدر بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما ئوں کی طرح پارلیمنٹ پہنچ کر اپنی جماعت کے اراکین سے خطاب کرتے ہیں، فیس ٹو فیس رابطہ قائم کرتے ہیں، آپس میں گھل مل جاتے ہیں اور اس طرح ان سب کو پارٹی کے اراکین اور جماعت کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنے اور پھر ان مسائل کو موقع پر ہی حل کرنے کا موقع بھی میسر آتا ہے۔

ترکی میں اگرچہ صدارتی نظام موجود ہے لیکن صدارتی نظام کے ساتھ ساتھ قانون سازی کیلئے قومی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے۔ ترکی کی پارلیمنٹ ایک ایوان پر مشتمل ہے جبکہ پاکستانی پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہےلیکن جو بات قابلِ ذکر ہے وہ ترک پارلیمنٹ کا پاکستانی پارلیمنٹ کے مقابلے میں زیادہمنظم طریقے سے پورا سال ( تین ماہ کی چھٹیاں چھوڑ کر ) کام کرنا ہے۔ منگل، بدھ اور جمعرات کو پارلیمنٹ کا عام اجلاس منعقد ہوتا ہے جو حالات کی نزاکت کے لحاظ سے کبھی کبھار چوبیس گھنٹے بھی جاری رہتا ہےجبکہ پاکستان میں پارلیمانی سال کے دوران کم از کم 130 دن اجلاس منعقد کرنا ہوتا ہےلیکن کورم پورا نہ ہونے کی صورت میں کئی بار اجلاس منعقد نہیں ہو پاتے اور گزشتہ سال 39 بار کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ان اجلاسوں کو ملتوی کردیا گیا۔ پارلیمنٹ میں کورم پورا کرنے کیلئے کل اراکین کے ایک چوتھائی یعنی 86 اراکین کی حاضری لازمی ہےلیکن اراکین پارلیمنٹ ان اجلاسوں میں شرکت کیلئے اسلام آباد تو پہنچ جاتے ہیں اور اپنا ٹی اے ڈے اے بھی وصول کرلیتے ہیں لیکن اجلاس میں نہیں آتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وزیراعظم، قائدِ ایوان اورقائدِ حزبِ اختلاف کا اسمبلی میں بہت کم آنا ہے۔ جب وزیرِ اعظم ہی ایوان میں دلچسپی نہیں لیں گے تو وزراء اور پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے اراکین کی دلچسپی کیوں کر ہوگی؟ اگر عمران خان اوران کی جماعت نے ترکی کی پارلیمنٹ کا طریقہ کار اپنایا ہوتا تو شاید اُن کو موجودہ صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور ان کی جماعت کے اراکین بغاوت نہ کرتے۔ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں عدم شرکت صرف عمران خان ہی کا مسئلہ نہیں رہا، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس تک تواپنی پارٹی کے اراکین سے رابطہ قائم رکھتے ہیں لیکن بعد میں ان اراکین کو وزیراعظم کا چہرہ تک دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔

علاوہ ازیں پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اراکین کیلئے کوئی بھی جماعت کسی بھی قسم کی باقاعدہ ٹریننگ اور تربیت کا بندو بست نہیں کرتی۔ ترکی میں سیاسی جماعتیں اپنےسیاسی اراکین کی ٹریننگ اور تربیت کیلئے سیاسی اکیڈمیز قائم کیے ہوئے ہیں۔ ترکی کی طرز پر پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں کو بھی اس قسم کی اکیڈمیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

کالم کے آخر میں سب سے اہم بات۔عمران خان کو اگر موجودہ دور میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے وزیر اور مشیر مختلف ٹاک شوز میں ایک دوسرے سے بالکل متضاد باتیں کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کسی بھی ایشو پر حکومت کو پہلے سرکاری طور پر بیان کو جاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر جاری کردہ بیان ہی کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے وزرا اپنا نقطہ نظر پیش کرسکتے ہیں۔ان پہلوئوں پر عمران خان حکومت ہی کو نہیں، نئی آنے والی حکومت کو بھی غور کرنا ہوگا۔

بشکریہ جنگ 

بشکریہ جنگ نیوزکالم