54

بڑھتا ہوا سیاسی بحران

اچانک ایسا کیا ہوا کہ چند ماہ میں ایک جمہوری عمل ٹھپ ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا، منتشر اپوزیشن متحد نظر آنے لگی، حکومت کے اتحادی ناراض سے لگنے لگے، حکمران جماعت میں دراڑیں گہری ہونے لگیں اور اچانک بہت سے لوگوں کا سویا ہوا ’ضمیر‘ جاگ اُٹھا؟ ایساآخر کیا ہوا کہ اچانک حزبِ اختلاف کو ’امپائر‘ نیوٹرل نظر آنے لگا اور ساری زندگی نیوٹرل امپائر کا کریڈٹ لینے والے وزیراعظم عمران خان اس کی نئی تعریف نکال لائے جس میں غصہ زیادہ نظر آ رہا ہے۔

اب تو کسی کو یہ کہتے ہوئے بھی سوچنا پڑتا ہے کہ تم نیوٹرل ہو؟ ایسا کیا ہوا کہ پچھلے تین برسوں میں سینیٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود اپوزیشن کو متواتر شکست کا سامنا کرنا پڑا ’باضمیر‘ سینیٹروں اور نیوٹرل امپائروں کی وجہ سے اور پھر اچانک وزیراعظم ایوان میں اعتماد کا ووٹ کھوتے نظر آ رہے ہیں؟

خود پارٹی کے اندر سے بانی اراکین نئے قائدِ ایوان کی باتیں کر رہے ہیں۔ اتحادی ’ہارس ٹریڈنگ‘ کی تردید کر رہے ہیں۔ اِن سوالات کا جواب نہ آپ کو حزبِ اقتدار سے ملے گا، نہ حزبِ اختلاف سے کیونکہ ایک اقتدار میں آنے کی کوشش میں لگا ہے تو دوسرا اقتدار بچانے کی اور ان کے درمیان پانچ پانچ، چھ چھ سیٹوں والے اتحادی مزے لوٹ رہے ہیں۔

خان صاحب جس کی شکل دیکھنا برداشت نہیں کرتے تھے اس کی بات پر مسکراتے ہیں تو دوسری طرف سڑکوں پر آصف زرداری کو گھسیٹنے والے اور نواز شریف کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے زرداری صاحب عظیم تر ملکی مفاد میں ساتھ ساتھ ہیں، مولانا فضل الرحمٰن کی امامت میں۔

 ان سب سوالات کےجوابات اس ملک کے سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں کو تلاش کرنے پڑیں گے۔ایسا آخرکیوں ہوتا ہے کہ اگر کبھی کوئی منتخب وزیراعظم چاہے وہ سلیکٹڈ ہی کیوں نہ ہو اپنا استحقاق استعمال کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا، رکاوٹیں آڑے آ جاتی ہیں۔ مجھے اب وزیر اعظم عمران خان کی کئی باتوں سے اختلاف ہے اور وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ انہیں ایمپائر نیوٹرل نہیں چاہئے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کھڑا ہو،ان کا ہمنوا بنا رہے۔ شاید یہ وہ نکتہ ہے جو اختلافِ رائے کا باعث بنا، اکتوبر 2021 میں اور وزیر اعظم کو اپنے موقف اور فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑی۔

یہ ایک ایسی سوچ ہے جو ہماری سیاست میں نقصان دہ رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا ماضی ہے جب سیاسی معاملات میں متواتر مداخلت رہی۔ بدقسمتی سے سیاست دانوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ مگر یہ استحقاق بہرحال ایک منتخب وزیر اعظم کا ہی ہونا چاہئے۔ یہ استحقاق مگر حاصل نہیں ہے کہ آپ اداروں سے سیاسی حمایت مانگیں۔

 ٹیلیفون کالز بند ہونے پر اعتراض کریں۔ اگر کل لوگ ضمیر کا سودا کرکے چیئرمین سینیٹ کیخلاف ووٹ دے رہے تھے اور آپ اسے ضمیر کی آواز کہہ رہے تھے تو وہ آج کیسے غلط ہوگیا؟ میرے نقطہ نظر سے کل بھی یہ ’ضمیر فروش‘ تھے اور آج بھی ہیں۔

اس پس منظر میں مجھے ’عدم اعتماد‘ کی تحریک کے عوامل کچھ اور نظر آ رہے ہیں اور 2008 میں شروع ہونے والا جمہوری عمل خطرے میں نظر آ رہا ہے۔

 عین ممکن ہے میرا تجزیہ غلط ہو مگر اس پورے عمل میں مجھے سب سے زیادہ سیاسی نقصان جمہوریت کو ہوتا نظر آ رہاہے جب150اور100سیٹوں والی جماعت چاہے اس کا تعلق حزبِ اقتدار سے ہو یا حزبِ اختلاف سے یرغمال ہے، چند نشستوں والی جماعتوں کے آگے۔ ایسے میں عدم اعتماد کی تحریک منظور ہو بھی جائے تو کیا اور ناکام ہو جائے بھی تو کیا۔

کیا بہتر نہ ہوتا کہ حکومت اپنے پانچ سال کا حساب دیتی نہ کہ ساڑھے تین سال کا۔اپوزیشن نے تو وزیر اعظم کو نئی سیاسی زندگی دے دی۔ یہ PDM کو بھی پتہ ہے اور پی پی پی کو بھی کہ سیاسی و معاشی عدم استحکام دیواروں پر لکھا ہے۔ نہ یہ ( پی ٹی آئی)، IMF سے نکل سکتے ہیں نہ عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کی صورت میں حزبِ اختلاف کے پاس کوئی متبادل پلان ہے۔ چاہے الیکشن 2022کے آخر میں ہوں یا وقتِ مقررہ پر۔

آج 75سال بعد بھی کوئی وزیر اعظم اپنی میعاد پوری نہ کر سکا۔ 25 مارچ سے 30 مارچ تک اسلام آباد سیاسی میدانِ جنگ نہ بن جائے اور ایسی صورتحال کا انجام ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ وزیراعظم اپنے وزیروں اور مشیروں سے جتنا بچ سکتے ہیں بچیں، کیونکہ ان میں سے کئی اپنے اپنے ’ضمیر‘ کے ساتھ آنے والوں کے ساتھ نظر آئیں گے۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ ’ڈی چوک‘ پر آپ بھی لاکھوں لوگوں کے ساتھ ہوں اور اپوزیشن بھی۔ کتابیں موجود ہیں سابق بیورو کریٹس اور انٹیلی جنس افسران کی کہ ہنگامے کیسے ہوتے ہیں اور کرائے جاتے ہیں۔

 مجمع میں ایک ’’پتھر‘ ‘آگ لگانے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ اگر 1976 میں ذوالفقار علی بھٹو اپنے مشیروں کا مشورہ نہ مانتے تو ان کے پاس ایک سال اور تھا الیکشن کرانے کیلئے، اگر وہ ان وزیروں کا مشورہ نہ مانتے جو حزب اختلاف کو بزور طاقت دبانے کا مشورہ دے رہے تھے اور PNA کی تحریک کے دوران شروع میں ہی دوبارہ الیکشن کرا دیتے تو الیکشن شاید وہ زیادہ اکثریت سے جیتتے۔ خون بہنے کے بعد مذاکرات تو ہوئے، معاہدہ بھی ہوگیا مگر سازش کرنے والوں کی سازش کامیاب ہو گئی۔ہم تو اس ملک میں حقیقی مغربی جمہوریت کو ترس گئے، وہاں تو اقدار اقتدار میں آنےکا باعث بنتی ہیں۔ جہاں سیاست کا پیمانہ اخلاقیات ہے۔

 الزام لگ جائے تو فوراً عہدہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جمہوریت، تنقید برداشت کرنے کا نام ہے، قانون کی حکمرانی کا نام ہے، حکمرانوں کے قانون کا نہیں، آزادیٔ اظہار اور آزادی صحافت کا نام ہے۔ بااختیار مقامی حکومتوں کا نام ہے۔

آج 23 مارچ ہے دوستو۔ یوم پاکستان ہے جب کوئی82سال پہلے پاکستان کو ایک جمہوری ملک بنانے کا خواب دیکھا گیا تھا۔ اسی لیے قرار داد پاکستان کسی ڈریسنگ روم میں نہیں، کسی فردنے نہیں ایک سیاسی جماعت نے لوگوں کے اجتماع میں منظورکرائی۔

آزادی تو سات سال بعد 14 اگست 1947کو حاصل کر لی گئی مگر جمہوریت پچھلے 75 برسوں میں خواب ہی رہی، جس ملک میں کالے قوانین کی بھرمار ہو، جہاں پروڈا اور ایبڈو جیسے قانون لا کر ’’باضمیر ‘‘سیاست دانوں کو بشمول کئی تحریک پاکستان کے ساتھیوں سمیت ’نااہل‘ قراردے دیا جائے وہاں بے ضمیر سیاست دان بھی کسی نہ کسی ’گیٹ ‘ سے ہی آئیں گے۔

بشکریہ جنگ 

بشکریہ جنگ نیوزکالم