316

فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے...

پڑھے لکھے لوگ جب اپنے تعصبات اور مفادات کے اسیر ہوجاتے ہیں تو غیر جانبدارانہ تجزیئے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ مفادات اور تعصبّات سے بالاتر ہو کر بات کرنے والے اور وطنِ عزیز کو ترجیح اوّل سمجھنے والے ناپَید ہوچکے مگر استثنائی صورتیں اب بھی مل جاتی ہیں۔

ہمارے عزیز بریگیڈیئر منیر چیمہ صاحب انھی میں سے ہیں۔ انتہائی قابل سرجن، ہر شخص سے ہمدردی رکھنے والے اعلیٰ انسان اور ملک کو ہر چیز پر ترجیح دینے والے محب وطن پاکستانی۔ پچھلے کئی سالوں سے وہ عمران خان صاحب کے سپورٹر تھے۔ کل ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تو خود ہی کہنے لگے،’’میں کئی برسوں سے واچ کررہا ہوں،اب یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ  نواز شریف نے اپنے سیاسی مخالفوں کے خلاف بھی کبھی تہذیب سے گری ہوئی بات نہیں کی مگر عمران خان نے  اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں جو لب ولہجہ اختیار کیا، اس نے ہم جیسے حامیوں کو بھی بدظن کردیاہے‘‘ ۔

محفل میں عسکری پس منظر رکھنے والوں کی اکثریت تھی۔ ایک آواز آئی ’’کرپٹ لوگوں کے ساتھ ایسی ہی زبان استعمال ہونی چاہیے‘‘مگر وہیں دو تین افراد نے اس دلیل کو رد کرتے ہوئے کہا، ’’ملک کے وزیرِاعظم کا اندازِ تکلم گلیوں میں کھیلنے والے لڑکوں جیسا نہیں ہونا چاہیے۔

قرآن میں کسی کو برے القاب سے پکارنے سے منع کیا گیاہے۔‘‘ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب جو اب تک خاموش تھے کہنے لگے،’’پرائم منسٹر بین الاقوامی سطح کا اسپورٹس مین رہا ہے، اسے اس مقابلے میں اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا ، اب تو نظر آرہا ہے کہ وہ اکثریت کھوچکا ہے، اسے چاہیے تھا کہ قوم سے ایڈریس کرتا اور resign دے کر چلاجاتا۔

“But the way he has conducted himself in this crisis has badly shattered his image. Probably he lacks grace of a true leader”

ایک اور آواز آئی،’’کپتان روند ماررہا ہے۔‘‘ کسی نے کہا،’’اسپیکر کو اجلاس نہ بلانے پر مجبور کرکے آئین شکنی کی جارہی ہے۔‘‘ ایک نوجوان افسر نے سوال کیا ، ’’مگر عمران خان کا متبادل بھی تو کوئی نہیں، کیا ہم پھر آزمائے ہوؤں کو ووٹ دے دیں۔‘‘ اس پر میں نے کہا، ’’آزمائے ہوؤں کو ووٹ دینا مہذب معاشروں میں برا نہیں سمجھا جاتا۔ امریکا اور برطانیہ میں کئی دہائیوں سے دو پارٹی سسٹم ہے اور لوگ بار بار آزمائے ہوؤں کو ووٹ دیتے ہیں۔ ویسے اگر آپ متبادل کا پوچھ رہے ہیں تو چار سیکٹرز ایسے ہیںجن میں عمران خان سے شہباز شریف یقیناً بہت بہتر ہے۔

اکانومی، گورننس، انفرا اسٹرکچرل ڈویلپمنٹ اور چوتھی فارن پالیسی، کیونکہ شہباز شریف غیر ذمّے دارانہ بیانات سے ہمارے عالمی دوستوں کو ناراض نہیں ہونے دے گا‘‘۔ اس پر چند لوگوں نے اثبات میں سرہلائے اور کچھ خاموش رہے۔ راقم خود ابھی ابھی وزیرِاعظم کے ارشاداتِ عالیہ سے مستفیض ہوا ہے، ایک تو وہ ہر روز کی طرح آج بھی فرما رہے تھے کہ ’’میں کسی کے آگے جھکتا نہیں ہوں‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے ہر دَر پر جھکے ہیں۔

انھوں نے ہر تنکے کو جپھا مارنے کی کوشش کی ہے کہ شاید یہی میری وزارت عظمیٰ بچالے۔ وہ ایم کیو ایم کے دَر پر حاضر ہوئے اور چوہدریوں کی چوکھٹ پر بھی تشریف لے گئے۔ کرسی کی محبت نے خان صاحب کے قائدانہ امیج کو بری طرح گہنا دیا ہے۔ وزیرِاعظم صاحب پہلے کریڈٹ لیتے رہے کہ دیکھا میرے قریب ترین ساتھی جہانگیر ترین اور علیم خان پرکرپشن کے الزامات لگے تو میں نے انھیں فارغ کردیا۔ اب حکومت جاتی ہوئی نظر آرہی ہے تو ترین اور علیم کو منانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔

جلسوں میں بیٹھے معصوم اور نیم خواندہ لوگوں کے سامنے فرماتے ہیں کہ مجھے کسی عالمی طاقت کی پرواہ نہیں، میں آزاد خارجہ پالیسی رکھنا چاہتا ہوں مگر اندر خانے دن رات کوششوں میں لگے رہے کہ کسی طرح امریکی صدر فون کرلے اور بھارتی وزیرِاعظم فون سن لے، امریکا گئے تو صدر ٹرمپ کے سامنے صحافیوں کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں سوال کرنے سے منع کردیا گیا، یہ سیاست اور لیڈرشپ کی کونسی قسم ہے؟

ہم اُن سے سیکڑوں مرتبہ سن چکے ہیں کہ ’’مجھے اﷲ نے سب کچھ دیا تھا، میرے پاس حکومت کے بغیر بھی کسی چیز کی کمی نہیں تھی، مجھے اقتدار کی کیا پروا ہے؟‘‘  مگر اُن کے اعمال اُن کے اقوال سے کم از کم 180 ڈگری اُلٹ نظر آتے ہیں۔ جب انھوںنے خود تسلیم کر لیا کہ ان کے 14ایم این اے اپوزیشن کے ساتھ مل گئے ہیں تو ابہام ختم ہوگیا اور روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ وہ قومی اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد کھوچکے ہیں۔

لہٰذا وہ قائدِایوان (وزیرِاعظم) رہنے کے حقدار نہیں رہے۔ اس صورت میں وہ وقار اورdignity کے ساتھ مستعفیٰ ہوتے اور عوام کے پاس چلے جاتے مگر وہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے اتحادیوں کی منت سماجت کررہے ہیں، دوسری طرف اسپیکر قومی اسمبلی نے چودہ روز میں اجلاس ہی طلب نہیں کیا۔ اس عمل سے اسپیکر صاحب پارٹی کے جیالے بن کر آئین کی بھی پرواہ نہیں کررہے ہیںکیونکہ وہ کاؤنٹنگ سے فرار چاہتے ہیں۔

نوازشریف کے شدید مخالف اور عمران خان کے ہمدرد اعتزاز احسن صاحب نے بھی اور اب اٹارنی جنرل نے بھی واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ منحرف ارکان کے ووٹ کاؤنٹ ہوںگے اور الیکشن کمیشن کے فیصلے تک وہ اسمبلی اور کمیٹیوں کے تمام اجلاسوں میں شریک ہوا کریں گے۔

میں خود بھی قانون اور آئین کا طالب علم رہا ہوںاگر پارٹی سربراہ کی پالیسیوں سے اختلاف کرنا اور اس کے خلاف ووٹ دینا اتنا ہی ناپاک عمل ہوتا تو آئین میں اس سے واضح طور پر منع کردیا جاتا اور وزیرِاعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کو غیرآئینی سمجھ کر اس کی گنجائش ہی ختم کردی جاتی۔ وزیرِاعظم اورا سپیکر بخوبی جانتے ہیں کہ عمل اور فعل سے پہلے سزا نہیں دی جاسکتی اور زیادہ سے زیادہ سزا بھی ایک بار نشست سے محرومی ہے مگر لگتا ہے کہ خان صاحب فاشزم کی راہ پر چل نکلے ہیں، وہ قانون، آئین اور اخلاقی اقدار کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے ہیں۔ ملک کو انارکی کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے۔

قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ جب  بلوچستان حکومت تبدیل ہوئی تو اس عمل کو آپ کی آشیر باد حاصل تھی۔ جب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی اور ہارس ٹریڈنگ کے الزامات سامنے آئے تو آپ نے اسے ضمیر کا فیصلہ قرار دیا تھا۔ کسی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وہ لوٹے جن سے آپ پونے چار سال وضو کرتے رہے وہ اب ناپاک کیسے ہوگئے ہیں۔‘‘ آپ سے علیحدہ ہونے والے لوگ کافی عرصے سے آپکی پالیسیوں اور رویے سے نالاں تھے اور اس کا اظہارکرتے رہتے تھے۔

وہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر پیسے نہ لینے کی قسمیں اُٹھارہے ہیں مگر آپ بغیر کسی شہادت اور ثبوت کے اُن پر پیسے لینے اور ضمیر بیچنے کا الزام لگارہے ہیں، ساتھ ہی اپنے ورکروں کو اُکسا رہے ہیں کہ اُن پر اور ان کے بچوں کا سماجی بائیکاٹ کریںمگر اُسی سانس میں رشوت لینے والے انھی ’’بے ضمیروں‘‘ اور ’’لوٹوں‘‘کی منت کررہے ہیں کہ واپس آؤ اور میری حکومت بچاؤ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب غالباً اپنے لیے دیومالائی اسٹیٹس چاہتے ہیں۔

ان کا بولا ہوا ہر لفظ مستند اور حرفِ آخر مانا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ سرِ عام یوٹرن لے لیں مگر انھیں صادق اور امین سمجھا جائے، جن بیوروکریٹس، وزیروں اور مشیروں کو باصلاحیت اور ایماندار قرار دیں مگر انھیں ایماندار سمجھا جائے۔ وہ جو بھی سیاسی حربہ اختیار کریں،اسے اصولی سمجھا اور قرار دیا جائے، ہر سرکاری محکمے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں مگر اسے میرٹ اور انصاف کے مطابق سمجھا جائے۔

ان کی حکومت چاہے عالمی مالیاتی اداروں کی سخت ترین شرائط قبول کرلیں، اسٹیٹ بینک کو گروی میں رکھ دے ، ہماری شہہ رگ کشمیر کو فراموش کردیا جائے ، امریکا اور مغرب کی خوشنودی کے لیے عافیہ صدیقی کا نام تک نہ لیں، بلاضرورت بھارت کی تعریف کریں اور اس کی خارجہ پالیسی کو آزادانہ قرار دیں مگر عوام انھیں نجات دہندہ اور محافظ سمجھیں۔ یہ سب دیکھ کر ملک کے مستقبل کے بارے میں تشویش ہونے لگتی ہے۔

سیاستدان اپنے طرزِعمل سے تاریخ میں جگہ بناتے ہیں، کچھ ایسے سیاستدان ہیں جن سے اقتدار چھن جاتا ہے مگر ان کی عزت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو اقتدار سے گرنے کے بعد رسوائی اور بدنامی کے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں۔

فیصلہ تیرا ترے ہاتھوںمیں ہے…دل یا شکم۔ فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے کہ انھیں کیا عزیز ہے ۔ عزت و وقار یا حکومت اور اقتدار

بشکریہ ایکسپریس

بشکریہ ایکسپرس