ملکی سیاست اور انٹرنیشنل گیم؟

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال روزبروز گھمبیر ہوتی جارہی ہے،ایک طرف دنیا بھر کی نظریں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والے اسلامی سربراہی کانفرنس (او آئی سی)کے وزراء خارجہ کے اجلاس پر لگی ہوئی ہیں.

دوسری طرف حکومت نے اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتمادکو ناکام بنانے کیلئے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک میں دس لاکھ لوگ اکٹھے کرنے کافیصلہ کیا ہے، کبھی ہمارے وزیراعظم اپنی تقاریر اور انٹرویوز میں انٹرنیشنل گیم اور عالمی سازشوںکاچرچہ کرتے ہیں توکبھی میڈیا میں وزیراعظم کے دورہ روس کو جواز بنا کرقیاس آرائیاں کی جاتی ہیںکہ پاکستان نے امریکی بلاک چھوڑ کر روسی بلاک میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

میراہمیشہ سے یہی موقف ہے کہ ملکی سیاست میں عالمی ایشوز بالخصوص دوست ممالک کو زیربحث نہ لایا جائے، ہمارے سیاسی رہنماؤں کے غیرذمہ دارانہ بیانات نہ صرف اسلام آباد میں موجود سفارتکاروں میں تشویش کی لہر دوڑا دیتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔

آج ماضی کی سپرپاور روس کا اپنی سابقہ ریاست یوکرائن پر تباہ کُن حملہ دنیا بھر کے میڈیا کی خبروں کی زینت ہے، تاہم ہمیں اس حوالے سے کچھ حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یوکرائن 1992ء سے قبل سابق سوویت یونین کا حصہ تھا، سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرائن بطور آزاد ریاست دنیا کے نقشے پر ابھرا، آج بھی وہاں روسی زبان عام بولی اور سمجھی جاتی ہے اور ایک بڑی تعداد روسی باشندوں کی بستی ہے۔

 روس کو یوکرائن حکومت سے روس مخالف عسکری اتحاد نیٹو اور یورپی یونین کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں، روسی صدر ولادی میر پیوٹن سمجھتے ہیں کہ یوکرائن کی موجودہ قیادت امریکہ کے زیرسایہ مغربی ممالک کے اثرورسوخ میں آکر نیٹو کی روس مخالف سرگرمیوں کا دائرہ کار روسی سرحد تک لاکر خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتی ہے، یہی وہ دفاعی خدشات ہیں جنکی بناء پر روس نے یوکرائن پر دھاوا بول دیا.

 دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روس کو مطلوبہ نتائج کے حصول میں تاحال کامیابی نہیں مل سکی ہے اور اطلاعات کے مطابق روس نے یوکرائن کے خلاف جنگ میں چین کی عسکری مدد طلب کرلی ہے جبکہ اقوام متحدہ میں چین نے روس یوکرائن تنازع میں غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے غیرحاضر ی لگائی ہے.

بطور تجزیہ نگار میں نے اس سے یہی مطلب اخذ کیا ہے کہ روس اور چین کے بلاک کی باتیں فی الحال صرف قیاس آرائیاں ہیں لیکن موجودہ عالمی صورتحال کے بعد ہمارے حلقوں میں روسی بلاک اور امریکی کیمپ کی بحث دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمار ے ملک میں بلاکس کی سیاست روزِ اول سے جاری ہے.

 عالمی بلاکس کی سیاست نے پاکستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچایا ، ہم جب بھی عالمی بلاک کا حصہ بنے ، ہمیں غیر اہم سمجھتے ہوئے ہمارے لئے کچھ نہیں کیا گیا جبکہ مخالف بلاک نے ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہوئے ہر محاذ پر ہمارے راستے میں روڑے اٹکائے، اکہتر میں ہم امریکی بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتے رہ گئے جبکہ سویت بلاک کے اہم رکن بھارت نے ہمارا مشرقی حصہ ہم سے جدا کرنے کیلئے فیصلہ کُن جنگ چھیڑ دی۔

 عالمی مبصرین کے مطابق حالیہ یوکرائن تصادم عالمی محاذ پر طاقت کا توازن مغرب سے مشرق منتقلی کا پیش خیمہ ہے، روس نے جس انداز میں یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کو ناکام بنانے کیلئے حملہ کیاہے، اس نے خطے میں نیٹو اور مغرب کے حامی عناصر کو کمزور کیا ہے، سابقہ سویت ریاستیں جو اپنا مستقبل امریکہ سے وابستہ کرنا چاہ رہی تھیں، یوکرائن کی موجودہ صورتحال سے خائف ہوکر اپنے ارادے ملتوی کرنے پر آمادہ ہوچکی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ایسی نازک صورتحال میں ہمیں کسی فریق کو ناراض کرنے کی پالیسی نہیں اپنانی چاہئے،تاہم مجھے اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ آج ہماری صفوں میں انتشار اور ٹھوس خارجہ پالیسی کا فقدان ہے، ہمارے سیاستدانوں کو عوامی اجتماعات میں حساس عالمی ایشوز زیربحث لانے سے گریز کرنا چاہئے، حالات کا تقاضا ہے کہ ہمیں جذباتی طرز عمل کو خیرباد کہہ کر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے، اور کوشش کرنی چاہئے کہ عالمی طاقتوں کے مابین ممکنہ تصادم کے منفی اثرات ہماری کمزور معیشت پر نہ پڑیں،ہماری سیاسی جدوجہد کا محور خالصتاََ عوام کی خدمت اور پاکستان کی ترقی و سربلندی ہونا چاہئے۔

دنیابھر میں تحریک عدم اعتماد کو معمول کی پارلیمانی سرگرمی سمجھا جاتا ہے، ہمیں بھی موجودہ سیاسی صورتحال کو زیادہ طول دے کر انا کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہئے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کی جانب سے یہ مشترکہ پیغام سامنے آنا چاہئے کہ ہم کوئی ایسا غیرآئینی اقدام نہیں کریں گے جس سے ہمارا پیارا وطن عدم استحکام کا شکار ہوجائے۔

یہ کالم تحریر کرتے وقت مجھے پڑوسی ملک بھارت کا ایک واقعہ یاد آگیاہے ،جب 1999ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو واجپائی کو صرف ایک ووٹ سے تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا، تاہم انہوں نے خندہ پیشانی سے نتائج کو قبول کیا، کسی قسم کی انٹرنیشنل گیم کو موردِ الزام نہ ٹھہرایا اور ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچانے کیلئے اپنا استعفیٰ لے کر وہاں سے سیدھے راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر) روانہ ہوگئے۔

بشکریہ جنگ  
 

بشکریہ روزنامہ آج