164

سیاست میں اتنی بدتہذیبی کیوں؟

خان عبدالولی خان نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ دنیا میں حکومتیں آتی اور جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں عجب دستور ہے کہ جو کرسی پر براجمان ہو جاتا ہے تو وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتا، وہ اس کے ساتھ ایسے چپک جاتا ہے جیسے یہ اس کے وجود کا حصہ ہو۔ ولی خاں صاحب کا اشارہ ایک نام نہاد جمہوری لیڈر کی طرف تھا جو یہ کہتا تھا کہ وہ بے شک کمزور ہے مگر اس کی کرسی بڑی مضبوط ہے۔ اپنی اپوزیشن کے متعلق وہ نازیبا زبان استعمال کرتا۔ حتیٰ کہ وہ ان کے نام بھی بگاڑ بگاڑ کر لیتا مگر جب طاقت کے تیور بدلے تو جبر نے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لیا۔جبر کے متعلق یار لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ شاید یہ ہمیشہ کسی مخصوص طبقے یا یونیفارم میں آتا ہے، ہٹلر اور مسولینی جیسے بدترین آمر بظاہر جمہوری ڈرامے سے ہی سنگھاسن اقتدار پر براجمان ہوئے تھے۔ ایک بندہ اگر الیکشن کے ذریعے برسراقتدار آئے تو اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ وہ جمہوری الذہن ہے یا آمریت کاپروردہ نہیں ہے۔ اس کے انداز یہ بتاتے ہیں کہ اس کی ذہنیت کس قدر آمرانہہے۔ کچھ افراد تو اس بات کو بہت جلد بھانپ لیتے ہیں لیکن چکنی چپڑی باتوں سے محظوظ ہونے والے عوام کو اس کی سمجھ بالعموم تب آتی ہے جب پانی گلے تک پہنچ جاتا ہے اور کئی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ پانی جن کے سروں سے گزر جاتا ہے۔

بلاشبہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر اس سے سبق سیکھنے والے لوگ ہمیشہ کم ہی رہے ہیں۔ ہمارے ملک پر ان دنوں جو جبر مسلط ہے درویش پر اس کی ذہنیت ربع صدی قبل ہی آشکار ہوگئی تھی اس کے بعد بہت سے خوش گمان احباب پر اس کی اصلیت واضح کرنی چاہی مگر جو عشق کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہوتے ہیں وہ شعور کی کب سنتے ہیں۔ اب اتنی ٹھوکریں کھانے کے بعد لوگوں کی آنکھیں کھلی ہیں اور بہت سے لوگ قریب آ کر معذرت خواہانہ لہجے میں کہتے ہیں کہ افسوس ہم نے آپ کی باتوں پر بروقت دھیان نہ دیا۔ آج جبر کی یہ کنفیوز ذہنیت غالب کا جو شعر پڑھ رہی ہے کبھی ایسی ہی شخصیت کو ہم نے یہ شعر پڑھتے عدالت عظمیٰ میں سنا تھا۔ بالکل ایسی ہی دوغلی اپروچ، ایک طرف خود کو عالمی مدبر ثابت کرنے کی کوشش میں اپنے زوال کی کڑیاں امریکا اور یورپی یونین سے ملائی جا رہی ہیں جس طرح تب کہاگیا تھا کہ یہ سب کچھ سفید ہاتھی کروا رہا ہے، اسی طرح آج کہا جا رہا ہے کہ میرے خلاف تو عالمی سازش ہو رہی ہے کیونکہ میں غلط موقع پر فلاں طاقت کے دورے پر گیا تو فلاں طاقت جس نے ایک فون کال کرنے کی زحمت نہ کی اب وہ میرے خلاف سازشیں کر رہی ہے۔

ہماری اردو بھی کیا غضب کی زبان ہے جس نے پہلے ہندوستان کو توڑا پھر پاکستان کوتوڑا اور اب نہ جانے کس کس کو توڑنے جوڑنے جا رہی ہے۔ ایک شخص جو اس کی محبت میں گرفتارہونے کا دعویدار ہے حالانکہ اسے خود اس کی ادبی چاشنی چھوڑ ابجد کا بھی علم نہیں۔دن رات دوسری جماعت کی اسلامیات کا ورد کرنے والا جو خود اس زبان میں ’’خاتم النبین‘‘ اور ’’روحانیت‘‘ جیسے مبارک الفاظ پڑھنے سے قاصر ہے،اپنے مخالف سیاستدان کو خدا کے واسطے دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو اردو بولنا تو سکھا دو۔ بارش آتا ہے اور لڑکی جاتا ہے کی نقلیں اتارتا ہے۔ دوسروں کے بچوں کی اردو دانی پر معترض شخص سے کوئی یہ تو پوچھے کہ خود آپ نے اپنے بچوں کو اپنی یہ محبوب زبان کتنی سکھائی ہے؟ سچائی تو یہ ہے کہ اردو دانی کا طعنہ دینا بنتا ہی نہیں ہے محترمہ کتنی بڑی لیڈر تھیں حالانکہ خامیاں تو ان کی اردو میں بھی تھیں۔ آپ بتایئے جناح صاحب کو کتنی اردو آتی تھی؟ چند الفاظ بھی نہ بول سکتے تھے۔

کسی بھی شخص کے پاس جب صلاحیت اور کارکردگی نہ ہو تو پھر وہ ایسے ہی نان ایشوز میں الجھتا اور الجھاتا ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کے متعلق جو زبان ہم دو دہائیوں سے سن رہے ہیں اب اس کا کلائمیکس قابلِ ملاحظہ ہے جو اندر کی بدصورتی و بدتہذیبی کو آشکار کر رہا ہے۔مولانافضل الرحمٰن جیسی قابل صد احترام شخصیت کے متعلق گورنر ہائوس کراچی کے جلسے میں بولے گئے الفاظ کو کیا کہا جائے؟ جن کے متعلق اب مفادات کے پجاری بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن مفتی محمود کے آنگن کا وہ پھول ہے جس کی پورے ملک میں مہک ہے۔ لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ کوئی شخص اپنے گریبان میں جھانکے بغیرکسی دوسرے کو اس نوع کا طعنہ کیسے دے سکتا ہے؟ اپنی اپوزیشن کے متعلق یہ کیسی زبان استعمال کی جا رہی ہے کہ میرا پہلا نشانہ زرداری ہے، شوباز اور فضلو ڈیزل کو بھی نہیں چھوڑوںگا، ان کی گردنیں میرے ہاتھوں میں آگئی ہیں۔

جناب آپ اگراتنے ایکسپرٹ ہیں تو پھر اتنی گھبراہٹ بلکہ بوکھلاہٹ کاہے کی ہے؟ اگر خدا سے اس کی دعائیں مانگتے تھے تو پھر دوسرے منہ سے عالمی سازشیں کیوں کہہ رہے ہو؟ ذرا واضح کریں کہ وہ کونسی زنجیرتھی جس نے آپ کی زبان تو نہیں البتہ ہاتھ باندھ رکھے تھے اب ان ہاتھوں سے آپ اپوزیشن قائدین کی گردنیں دبوچنا یا دبانا چاہتے ہیں اور زرداری کو بندوق کی سیدھی گولی مارنا چاہتے ہیں۔ پچھلے پونے چار سالہ اقتدار میں آپ نے کتنوں کوگولیوں سے اور کتنوں کو گردنیں دبا کر مارا ہے؟

خدا کی پکڑ سے ڈریں یہاں کتنے آپ سے کہیں بڑے گزرے ہیں، عالمی تاریخ کے پروفیسر صاحب ذرا ماضی کے اِن کرداروں کی ہسٹری بھی ملاحظہ فرما لیں جو نشان عبرت بنے ۔ آخر میں محترمہ مریم نواز کی طرف سے نذر کیا گیا یہ شعر :

کبھی عرش پر کبھی فرش پر، کبھی ان کے در، کبھی در بدر

غم کرسی تیرا شکریہ، ہم کہاں کہاں سے گزر گئے

بشکریہ جنگ  
 

بشکریہ جنگ نیوزکالم