204

اسلامی نظام حکومت

دنیا میں حکومت کے کئی ماڈل ہیں‘ امریکا ، یورپی یونین، برطانیہ، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان، کینیڈا اور آسٹریلیا، نیوزی لینڈ میں جمہوری نظام ہے‘ سعودی عرب‘متحدہ عرب امارات‘ ترکی‘ ملائیشیاء‘ انڈونیشیاء‘ایران ‘عراق یا مصر مسلم ممالک ضرور ہیں‘ لیکن یہاں کوئی متفقہ اسلامی ماڈل رائج نہیں ہے۔

مسلم ممالک میں آمریت اور بادشاہت کو بھی آپ ایک ہی ماڈل کہہ سکتے ہیں مگر اس میں تھوڑا سا فرق یہ ہے ‘کہ سعودی عرب میں بادشاہت اور جب کہ مصر وغیرہ میں آمریت قائم ہے ‘طالبان کا طرز حکومت ایک الگ ماڈل ہے لیکن اسے بھی اسلامی ماڈل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

پاکستان میں اسلامی جمہوریت یا اسلامی طرز حکمرانی پر کئی دہائیوں سے علمی بحث جاری ہے جبکہ مذہبی سیاسی جماعیتں ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے سیاست میں سرگرم ہیں، اس ضمن میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک میں اﷲکی حاکمیت کو تسلیم کرکے اﷲ کے قانون کو رائج کیا جائے۔مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’’اسلام کا نظام حیات‘‘میں یہی اصول بیان کیے ہیں مگر ساتھ یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ایسی اسلامی ریاست میں بالغ رائے دہی کے تحت حکمران منتخب کیے جائیں گے ‘ڈاکٹر اسرار احمد خلافت کے نظام کے بہت بڑے داعی تھے۔

جاوید احمد غامدی صاحب پارلیمانی جمہوریت کے حامی ہیں اور ایسی فلاحی ریاست کے حق میں ہیں ‘جہاں ہر شخص اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکے ‘ان کا ماڈل سکینڈے نیوین ممالک سے ملتا جلتا ہے۔اسی طرح کچھ نیک نیت اصحاب کا خیال ہے کہ جب تک ملک میں صالح لوگ برسر اقتدار نہیں آئیں گے‘ اس وقت تک آئیڈیل اسلامی مملکت کا تصور محال ہے ‘اب یہ نیک لوگ کون ہیںاور کیسے منتخب کیے جائیں گے؟ عوام انہیں منتخب کیوں نہیں کرتے اور اگر منتخب کرتے ہیں تو پھر یہ صالح لوگ ڈیلیور کیوں نہیں کرتے؟ جیسا کہ ایم ایم اے کے تجربے سے واضح ہے۔یہ وہ سوالات ہیں جن کا تسلی بخش جواب اب تک نہیں دیا جا سکا ۔

اسلامی نظام حکومت کا ماڈل خلیفہ یا امیر المومنین کے تصورکے گرد گھومتا ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں توہمارے ذہن میں لا محالہ خلفائے راشدین کا سنہری دور رہتا ہے‘ جو نہ صرف یہ کہ مثالی تھا بلکہ جس کی وجہ سے مسلمانوں نے کئی سو سال تک دنیا کی امامت کی ۔ الماوردی وہ پہلا مسلمان مفکر تھا جس نے خلیفہ کی اہلیت اور اس کی ذمہ داریوں پر مربوط انداز میں تفصیل سے روشنی ڈالی اور ایک طرح سے اسلامی طرز حکمرانی کے خد و خال واضح کیے۔

اپنی کتاب ’’الاحکام السلطانیہ‘‘میں الماوردی نے اپنے سیاسی نظریات تفصیل سے بیان کیے ہیں‘ان کا کہنا ہے کہ امیر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہوگا‘جس کے ارکان صالح اور اہل مسلمان ہوں گے‘لیکن الیکٹورل کالج میں کون لوگ ہوں گے اوران کا انتخاب کیسے ہوگا؟ یہ بحث آج بھی ہورہی ہے ۔اصل الجھن انتخاب کے طریقہ کار اور مواخذے پر ہے۔

تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اپنے بھائیوں اور اقتدار کے ممکنہ امیدواروں، اپنے قریبی دوستوں اور وفاداروں کو بے رحمی اور سفاکی سے قتل کرایا، کسی کی آنکھیں نکلوائیں اور بد ترین ایذا رسانی کے ذریعے معذور کیا‘ یہ تاریخ کا سچ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ الماوردی اور دیگر مسلمان علماء نے اسلامی مملکت کے کام کرنے کے طریقہ کار پر بہت گراں قدر کام کیا ہے مگر عملاً مسلمان حکمرانوں نے اس ماڈل کو ملوکیت اور پاپائیت میں تبدیل کرکے رکھ دیا‘جدید دنیا میں مسلمانوں کے لیے یہ چیلنج اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ وہ کوئی ایسا ماڈل بناکر دکھائیں جسے وہ ترقی یافتہ اقوام کے سامنے اسلامی فلاحی مملکت کے طور پر پیش کرسکیں۔

پاکستان میں اسلامی نظام کی بڑی داعی سیاسی جماعتیں ‘جمعیت العلماء اسلام اور جماعت اسلامی ہیں‘ جنرل مشرف کے دور میں متحدہ مجلس عمل (MMA)کے نام سے پاکستان کی تقریباً تمام مذہبی جماعتیں متحد ہوکر انتخابی میدان میں اتری تھیں، جمعیت اورجماعت اسلامی اس اتحاد کی بڑی پارٹیاں تھیں۔

2002 کے انتخابات میں ایم ایم اے مرکز میں حتمی اکثریت حاصل نہیں کرسکی کہ حکومت بناسکتی البتہ دینی جماعتوں کا یہ اتحاد مرکز میں قابل لحاظ نشستیں جیتنے میں ضرور کامیاب ہوا۔ایم ایم اے نے صوبہ سرحد میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے صوبائی حکومت بنائی ‘عوام کو توقع تھی کہ اب صوبے کی حد تک اسلامی جماعتوں کی حکومت آئی ہے تو یہ کم از کم اتنا تو کام کر جائے جسے اسلامی کہا جاسکے ‘مرحوم ارشاد احمد حقانی سے کسی نے پوچھا کہ علماء کی حکومت کیسے ہوگی اور کیا تبدیلیاں لائے گی۔

پختون اور شمالی پہاڑی علاقوں کے غیر پشتون لوگ بحیثیت مجموعی مذہب کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں‘ یہاں سے نامور علماء کرام نکلے ہیں ، انہوں نے نہ صرف دینی خدمات سر انجام دیں بلکہ غیر ملکی طاغوتی طاقتوں کے خلاف جدوجہد بھی کی ‘مغل حکومت کے خلاف پیر روخانؒ ‘سکھوں کی حکومت کے خلاف سید احمد شہیدؒ‘سیّد اسماعیل شہیدؒ اور انگریز حکومت کے خلاف حاجی صاحب ترنگزئی‘ہڈے ملا صاحب اور فقیر ایپی کی قیادت میں ان علاقے کے لوگوں نے جان و مال کی قربانیاں دی ہیں۔پیر روخانؒ‘اخون درویزہ باباؒ‘ مولانا سید امیرؒ‘ مفتی محموؒد‘ مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنچ پیرؒ نے یہاں پر دینی خدمات سر انجام دیں۔

پیر باباؒ‘حضرت بہادر باباؒ اور حضرت کاکا صاحبؒ جیسے صوفیائے کرام نے دین کی روشنی پھیلائی ‘تبلیغی جماعت کا مر کز رائے ونڈ لاہور ہے لیکن اس کے ممبران کی اکثریت پختون اور شمالی پہاڑی علاقوں کے لوگ ہیں۔ 1972میںولی خان جیسے سیکولر رہنماء نے اکثریت میں ہونے کے باوجود صوبہ سرحد کی وزارت اعلی مفتی محمودؒ کے حوالے کردی۔

آج تک ان کے فقیرانہ طرز حکمرانی کی مثالیں دی جاتی ہیں‘جب بلوچستان میں NAPکی حکومت ختم کی گئی تو مفتی محمود نے ایک جمہوریت پسند ہونے کا ثبوت دیا اور صوبہ سرحد کی حکومت ان کی قیادت میں دس مہینے کے بعد مستعفیٰ ہوگئی ‘جس سوٹ کیس میں کپڑے ساتھ لائے تھے وہی واپسی میں ان کا رخت سفر تھا‘یہ ہوتا ہے ایک سچے عالم دین کی نشانی کہ اصولوں کے لیے کرسی کولات ماردی ۔

جب ایم ایم اے کی شکل میں تمام مکاتب فکر کی پارٹیاںمتحد ہوئیں تو پہلی دفعہ جمیعت العلماء اسلام اور جماعت اسلامی کو صوبہ سرحد میں بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کا موقعہ ملا۔مساجد میں بیٹھ کر حکومت کرنے ‘گورنر ہاؤس اور چیف منسٹر ہاؤس کو کالج بنانے ‘فقیرانہ زندگی گزارنے کے وعدوں نے عوام کی توقعات میں اضافہ کیا‘ صوبہ سرحد کے عوام کا خیال تھا ایم ایم اے نے ڈیلیور کردیا تو اگلے الیکشن میں مرکز میں بھی دینی جماعتیں حکومت بنائیں گی لیکن 2008 کے انتخابات میں ایم ایم اے کو بدترین شکست ہوگئی۔

یہ سوال بہت اہم ہے کہ صوبہ سرحد کے ووٹرز اتنی جلدی ان سے مایوس کیوں ہوگئے؟ وجہ یہی تھی کہ ایم ایم اے نے اسلامی نظام کے وعدے پر ووٹ لیے لیکن اس حوالے سے عملی کام نہیں کرسکے‘ شریعت بل پاس ہوکر الماریوں کی زینت بن گیا‘ حسبہ بل نام کا قانون ایک مذاق بن کر رہ گیا‘صوبہ سرحد کی حکومت‘ بلوچستان میں (ق)لیگ سے اتحاد کیا گیا اور مرکز میں قائد حزب اختلا ف کے عہدے کو ہی کافی سمجھا‘ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے لیے اسمبلی کی نشستیں ‘ نظامتیں یا بڑے بڑے سرکاری عہدے ہی مقصد بن گیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام نے پرانی طرز سیاست اور پرانے فرسودہ طرز حکومت کو رد کرتے ہوئے ایم ایم اے کو ایک دینی اور سماجی انقلاب برپا کرنے کے لیے ووٹ دیے تھے لیکن حکومت گڈ گورننس کا تاثر قائم نہ کرسکی‘ ہر محکمہ پرانے ڈگر پر چلتا رہا ‘ رشوت ‘سفارش اور اقرباء پروری کاکلچر ختم نہ ہوسکا ‘پولیس اور پٹواری کی روش نہ بدلی ‘ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے دینے کا طریقہ پرانا ہی رہا‘کچہریوںمیں رشوت کی شرح بڑھ گئی ‘اہم عہدوں پر تعیناتیاں قابلیت کے بجائے رشتوں کی بنیاد پر کی جاتی تھیں‘ امن وامان کی صورت حال تباہ اور اغوا برائے تاوان روز مرہ کا معمول بن گیا۔

محترم سراج الحق صوبے کے سینئر وزیر اور وزیر خزانہ تھے ‘باوجود دعوے کے ‘مسجد مہابت خان کے بجائے سرکاری گھر میں مقیم رہے ‘ قاضی حسین احمد کا امیج 2008کے انتخابات میں بائیکاٹ نے بچا لیا‘ورنہ انتخابات میں انہیں بھی شکست ہوجاتی۔ انتخابات کے موقعے پر ایم ایم اے کا شیرازہ بکھر گیا۔

بشکریہ ایکسپریس
 

بشکریہ ایکسپرس