1747اکتوبر کا مہینہ تھا ،کندہار کے شیرسرخ بابا زیارت میں پشتونوں کے مختلف اقوام کے سربراہان و مشران اکھٹے ہوئے تھے ۔
نو دن تک مسلسل غورو فکر کے بعد ایک نوجوان کو اپنا سربراہ مقرر کیا گیا جس کا نام احمدخان تھا۔ جس کو بعد میں دنیا نے احمدشاہ ابدالی اور احمدشاہ درانی کے نام سے پہچانا اور اسے فاتح پانی پت کا خطاب بھی ملا۔ اس کے ساتھ وہ افغانیوں کے بابا قوم بھی قرار پائے ۔
موجودہ افغانستان1747کے جرگے کا نتیجے میں وجود میں آیا ہے ۔ اس سے پشتون روایات میں جرگے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یاد رہے مختلف ادوار میں مختلف مسائل پر جرگوں کا انعقاد ہوتا آرہا ہے جو کہ تاریخ کا حصہ ہے ۔
تاریخ کے اسی تسلسل میں رواں ہفتہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے زیراہتمام خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں بھی ایک سہ روزہ جرگے کا انعقاد ہوا ۔
منتظیمن کے مطابق مذکورہ جرگے میں پانچ سے زائد مندوبین پشتون علاقوں کے علاوہ کراچی ،لاہور اور چکوال سے تشریف لائے تھے ۔
مذکورہ جرگے کی اہم اور تاریخی بات اس میں خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت تھی ۔
اس سے پہلے خواتین کی جرگوں میں شرکت کی مثال تاریخ میں خصوصی طور پر پاکستان کے پشتون علاقوں میں بہت کم ملتی ہے۔
مذکورہ جرگے میں شرکت کرنے والی خواتین قندی صافی جو کہ پشاور سے بنوں خصوصی طور پر جرگے میں شرکت کرنے کیلئے آئی تھا ۔
انہوں جرگے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا "میں نے جرگے میں مختلف اقوام کے ان تمام مشران کو دیکھا جس کے بارے میں پہلے میں نے صرف سنا تھا ۔جرگے میں تمام مندوبین کا ایک ہی موقف تھا ۔ سب پشتون قوم کے مسائل سے آگاہ تھے ۔
وہ چاہتے تھے کہ ان کے مسائل حل ہو ں۔ اور اس کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ لیکن جرگے کی اہم بات خواتین کی شرکت سمبولیک نہیں تھی۔
بلکہ خواتین کو بھرپور موقع دیا گیا ۔ تاکہ خواتین اپنے مسائل پر بات کرسکیں ۔ اور ان مسائل کے حل کیلئے کوئی راستہ نکالیں۔"
جمیلہ گیلانی نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہیں اور اس کے ساتھ وہ پشتون خواتین کی تحریک سے بھی وابستہ ہیں۔ ان کا بنوں جرگے کےبابت کہنا تھاکہ اس جرگے کی ضرورت تھی ۔
ہمارے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ بڑی تعداد میں خواتین نے اس میں شرکت کی۔ خواتین نے اپنے مسائل اپنے قوم کے سامنے رکھے ۔ مذکورہ جرگے کی انعقاد جس پارٹی نے کیا تھا ،اس پارٹی میں خواتین کی ممبرشپ نہیں ہے ۔
خواتین مقررین نے تلخ باتیں کیں لیکن انہوں نے وہ باتیں بڑے دل اور تسلی سے سنیں۔ ہم نے کوشش کی اور لوگوں تک ایک سوچ منتقل کی اور اس کا ردعمل مثبت آیا ۔
لیکن مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے ہماری باتوں کو مذاق کے طور پر لیا ۔لیکن خیر کوئی بات نہیں ہم اپنا کام کریں گئے وہ اپنا ۔ یہ خواتین کیلئے ایک اچھی کاوش تھی ۔
امید رکھتے ہے کہ یہ جرگہ مستقبل میں بہتر نتائج دیے گا۔ میرے خیال سے اگر اس جرگے میں خواتین شریک نہیں ہوتی تو ایسا لگتا کہ یہ تنگ نظر سوچ کے حامل جرگہ ہے۔ ہم اس جرگے کو تسلیم بھی نہیں کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا یہ جرگہ بہتر نتائج لاسکتا ہے۔
یاد رہے بنوں جرگے کیلئے تین دن مختص کیئے گئے تھے، لیکن یہ چار دن تک جاری رہا ۔
جرگے کا مشترکہ اعلامیہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمودخان اچکزئی نے پیش کیا ۔ اعلامیہ میں خواتین کیلئے باقاعدہ ایک شق رکھی گئی۔
مذکورہ شق میں تحریر ہے کہ پشتونو ں کا یہ نمائندہ جرگہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ تعلیم ،اقتصاد ،سیاست اور ثقافتی امور میں خواتین کی شرکت کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کرسکتا ہے ۔پشتون خواتین جو کہ ماضی میں مردوں کے شانہ بشانہ ہر میدان میں کھڑی نظرآتی تھیں۔
لیکن بدقسمتی سے جہالت ، ناخواندگی، غلط رسومات ، اور اسلام مقدس دین کی غلط تشریحات کے باعث خواتین بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہے ہیں ۔
جرگہ اس بابت چاہتا ہے کہ منفی رسومات کے روک تھام کے ساتھ سیاسی ،اقتصادی اور ثقافتی امور میں خواتین کی شرکت یقینی بنانے کیلئے قوانین بنائیں جائیں۔
یاد رہے پشتون قومی جرگےمیں کیئے گئے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جرگے کے قرارداد کے پہلے شق میں کہا گیا ہے کہ جرگے کو ایک مستقل ادارہ بنایا جائے ۔
اس کے ذیلی کمیٹیاں قائم کیجائیں تاکہ وہ مسائل کے حل کیلئے اپنی توانائی خرچ کریں ۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو ممکن ہے کہ پشتون سماج میں خواتین زندگی کی نئے دور میں داخل ہو اور یہ زندگی جدید دنیا کی تقاضوں کے عین مطابق ہو۔