117

کشمیر۔ پاکستان اور انڈیا کا علاقائی تنازعہ

آزاد کشمیر کی سابق حکومت نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے اپیل کی تھی کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوستان کی جارحانہ پالیسیوں کے پیش نظر آزاد کشمیر حکومت کو کشمیر کاز کے حوالے سے خصوصی کردار تفویض کیا جائے۔سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس کے بعد پاکستانی حکومت کو مسئلہ کشمیر سے متعلق تجاویز پر مبنی ایک خط بھی لکھا لیکن آزاد کشمیر حکومت کے مطالبات پر مبنی اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان آزاد کشمیر حکومت اور سیاسی جماعتو ں کو متنبہ کر چکے تھے کہ کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جس سے انڈیا کو آزاد کشمیر، گلگت بلتستان پہ حملہ کرنے کا بہانہ مل جائے۔

مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق ہندوستانی حکومت کے5اگست2019کے اقداما ت کے بعد آزاد کشمیر حکومت کے زیر اہتمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس ہوا۔اب آزاد کشمیر میں برسراقتدار جماعت تحریک انصاف، اپوزیشن جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم کانفرنس، جے کے پی پی پی اور دومذہبی جماعتوں کے اجلاس میں دعوے کے ساتھ اس بات پہ اتفاق کیا گیا ہے کہ مظفر آباد، اسلام آباد میں جلسے اور لندن، برسلز، نیو یارک میںمظاہرے کئے جائیں گے۔یہ معلوم نہیں کہ آزاد کشمیر حکومت اور سیاسی جماعتوں کو اس طرح کے بے ضرر، بے رنگ و بے بو اقدامات سے کس نے روک رکھا تھا کہ اب ایسا’’تاریخی فیصلہ‘‘ ہونے کے بعد چند جلسے اور چند غیر ملکی مظاہروں کا اعلان کر کے انفرادی اور اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر کا اپوزیشن رہنمائوں سے یہ کہنا کہ’’ اے پی سی میں کیے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا‘‘، کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ تمام جلسوں اور بیرون ملک مظاہروں کے لیے سیاسی جماعتوں کے وفود کے اخراجات آزاد کشمیر حکومت ادا کرے گی۔وزیر اعظم عمران خان نے سی این این کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ کشمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے،5اگست2019کو انڈیا نے کشمیرکا اسٹیٹس تبدیل کیا جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان متنازعہ خطہ ہے،کشمیر میں8 لاکھ انڈین فوج موجود ہے، اس مسئلے پر اتنی توجہ نہیں دی جا رہی جس قدر اِس پر توجہ دی جانی چاہیے۔کشمیر میں جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ جرم کے زمرے میں آتا ہے۔

’’ لی فیگارو‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے بھارت کے ساتھ بات چیت کے بارے میں کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے لیکن کشمیر کی خودمختاری کی بحالی کے بغیر نئی دہلی سے بات کرنا کشمیریوں کے ساتھ غداری کے مترادف ہوگا۔بی جے پی حکومت اور ’’آر ایس ایس‘‘کا پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے رویہ تشویشناک ہے۔ ہم ایک ایسی حکومت سے نمٹ رہے ہیں جو عقلی نہیں ہے، جس کا نظریہ مذہبی اقلیتوں اور پاکستان سے نفرت پر مبنی ہے، ہم ان سے بات نہیں کر سکتے۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پیرس میں پاکستان کے سفیر کی تعیناتی کا معاملہ زیرغور ہے۔پاکستان کا سرکاری سطح پہ کشمیر کے حوالے سے یہی موقف ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا معاملہ ہے۔تاہم اب وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک خطے کے تنازعہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں کی واضح اکثریت اس بات پر شاکی ہے کہ دنیا میں مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے بجائے پاکستان اور انڈیا کے درمیان علاقائی تنازعہ کے طور پر دیکھا جا تا ہے۔

متضادحکمت عملی کے برعکس پاکستان کی سرکاری سطح پر اصولی پالیسی یہی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے حل کیا جانا ہے۔ جبکہ اب وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے عالمی میڈیا پرکشمیر کے مسئلے کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازعہ خطے کے معاملے کے طور پر پیش کیا جانا پاکستان کی روایتی کشمیر پالیسی کے برعکس ہے۔گزشتہ دنوں ہی ملکی انتظامیہ نے ایک خفیہ قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں انڈیا کے ساتھ کسی صورت جنگ نہ کرنے کی کوشش اورخواہش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کشمیر کے مسئلے کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک خطے کا تنازعہ قرار دینے سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی ترجیحات میں نیچے سے نیچے ہی جاتا جا رہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان دیگر علاقائی ملکوں کے ساتھ مل کر ہی کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مستحکم حکومت کا قیام وہاں موجود دہشت گرد گروپوں کے محدود کرنے کے حوالے سے بھی اہم ہے اور اس سے بحر ہند کے راستے وسط ایشیا تک علاقائی تجارت کو فروغ حاصل ہو گا۔یو کرین کے مسئلے پر پوری یورپی یونین کے سفیروں نے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھا کہ آپ روس کے خلاف ہمارے ساتھ دیں تو جواب میں عمران خان نے کہا کہ بھارت عرصہ دراز سے کشمیر پر قابض ہے اس نے کشمیر میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی توکیاآپ نے بھارت سے رابطہ توڑا یا تجارت بند کی ؟ماضی میں نیٹو کا ساتھ دینے سے پاکستان کو کیا ملا؟80 ہزار لوگوں کی جانیں گئیں اور ملک کو 100ارب ڈالر کا نقصان بھی ہوا۔

بشکریہ جنگ

بشکریہ جنگ نیوزکالم