ایک اور لانگ مارچ …!

وفاقی دارالحکومت کے در وازوں پرایک مرتبہ پھر ایک لانگ مارچ نے دستک دی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں عوامی مارچ سندھ سے ہوتا ہوا ڈی چوک اسلام آباد میں عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے کے بعداختتام کو پہنچ گیاہے، مجھے متعدد عوامی مظاہروں کا مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا ہے لیکن میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بلاول بھٹو کا حالیہ پاور شو نہایت متاثرکُن ہے.

اس لانگ مارچ نے پاکستان تحریک انصاف کے زیراہتمام احتجاجی دھرنے کی یادیں تازہ کردی ہیں جب اسلام آباد کی ہر چھوٹی بڑی سڑک پرپی ٹی آئی کے پرچموں کی بہار ہواکرتی تھی.

 گزشتہ چند دنوں سے اسلام آباد کی سڑکوں پر پیپلز پارٹی کے پرچموں سے سجی گاڑیاں رواں دواں نظر آرہی تھیں، بڑے بڑے ٹرکوں اور بسوں کی چھتوں پر پیپلزپارٹی کے ترانے بج رہے تھے ، جب بلاول بھٹو کا کارواں اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا تو جیالوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر ان کے استقبال کیلئے موجود تھا، اسلام آباد کی سڑکوں پر نکلنے والے عوام کا تعلق ملک بھر کے مختلف علاقوں سے تھا جو پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔

 جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھٹو کی کرشماتی اور طلسماتی شخصیت کا سحر چار دہائیاں گزرنے کے باوجودآج بھی قائم ہے، بلاشبہ بھٹوکا نام ہماری ملکی تاریخ کی ان چندعظیم شخصیات میں شامل ہے جنہیں بعد از مرگ بھی عقیدت سے یاد کیا جاتا ہے،ہماری قومی تاریخ میں قائداعظم کے بعد اگر کسی قدآور سیاسی شخصیت نے ملک و قوم پر انمٹ اثرات مرتب کئے ہیں تو وہ ذوالفقارعلی بھٹو ہے۔

 لاڑکانہ میں جنم لینے والے ذوالفقار علی بھٹو کے والد گرامی سرشاہنواز بھٹو جوناگڑھ کے وزیراعظم تھے،بطوروزیرخارجہ بھٹو نے سویت اور مغربی بلاک میں منقسم عالمی منظر نا مے میں پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی اور نہایت کامیابی سے پاکستان کا موقف عالمی برادری کے سامنے پیش کیا۔ پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر چین، انڈونیشیا، سعودی عرب، ایران، مصر، ترکی، اردن، کویت اور شام وغیرہ جیسے متعدد ممالک کو پاکستان کی مالی، سفارتی اور اخلاقی امداد پر قائل کیا۔

 اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر ایشو پر پاکستان کا موقف کھل کر پیش کیا، اس موقع پر بھٹو نے تاریخی تقریر کی کہ ہم کشمیر کیلئے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو ملک دولخت ہونے کی وجہ سے عوام کا مورال ڈاؤن تھا، بھٹو کے دور حکومت میں بھارت سے نوے ہزار جنگی قیدیوں کی باعزت واپسی ہوئی ،بھٹو نے جوہری پروگرام شروع کرتے ہوئے اعلان کیا کہ گھانس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے۔

بھٹو کی یہ بات آج مجھے روس کے یوکرائن پر حملے کے تناظر میں شدت سے یاد آرہی ہے کیونکہ سویت یونین کے زمانے میں یوکرائن میں ایٹمی پروگرام زوروں پر تھا جہاں کبھی تاریخ کا سب سے ہولناک جوہری حادثہ چرنوبل پلانٹ میں ہوا تھا، تاہم سویت یونین سے آزادی کے بعد یوکرائن امریکہ اور مغربی قوتوں کے ایماء پر اپنے جوہری پروگرام سے دستبردار ہوگیا اور آج جب روس نے یوکرائن کو نشانہ بنایاہے تو تمام مغربی قوتیںدور سے تماشا دیکھ رہی ہیں ۔

بھٹو کے بروقت اور دوراندیش فیصلے کی بدولت آج ہمارے پیارے وطن پاکستان کاملکی دفاع ناقابل تسخیر ہوچکا ہے،بھٹو کا عظیم کارنامہ پارلیمانی نظام کو مستحکم کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر انیس سو تہتر کا متفقہ آئین بناناہے ، بھٹو نے مسلمان ممالک پر مشتمل مضبوط اسلامی بلاک کے قیام کیلئے اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد کرائی ۔

 اسی طرح بھٹو کی دیگر خدمات میں مفت علاج معالجے کیلئے بڑے اسپتالوں کا قیام، تعلیم بالغاں کا فروغ،اعلیٰ تعلیمی اداروں یونیورسٹی اور متعدد میڈیکل کالجوں کا قیام شا مل ہے، غریب ہاریوں میں زمین تقسیم کی گئی اور شہریوں کیلئے شناختی کارڈ کا اجرا کیا گیا۔

میری نظر میں بھٹو کا ایک اور عظیم کارنامہ غیرمسلم اقلیتوں کو ترقی کے سفر میں شامل کرنے کیلئے قومی اداروں میں ملازمتوں میں شمولیت یقینی بناناتھا، آج بھی غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے پیپلز پارٹی سب سے آگے نظر آتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیات کے ساتھ عوامی فلاح و بہبود کیلئے کئے جانے والے یہ وہ نمایاں اقدامات ہیں جنہوں نے طویل عرصہ بیت جانے کے بعد بھی بھٹو کو عوام کے دِلوں میں زندہ رکھا ہوا ہے، اس بات کا کریڈٹ بھٹو خاندان کے چشم و چراغ بلاول بھٹو زرداری کو جاتا ہے کہ وہ اپنے عظیم نانا کے نام کی لاج رکھتے ہوئے عوام کوسڑکوں پر نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

بلاشبہ ہوشربا مہنگائی، کورونا ، پیٹرول اور ڈالر کی اونچی اُڑان، آئی ایم ایف کے دباؤ اور فیٹف کی لٹکتی تلوار نے عوام پر نہایت منفی اثرات مرتب کئے ہیں،تاہم میں سمجھتاہوں کہ تحریکِ عدم اعتماد ایک ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میچ کی طرح ہے جس کا نتیجہ کیا ہوگا، اس بارے میں فی الحال کوئی بھی درست تجزیہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔

بشکریہ جنگ 

بشکریہ روزنامہ آج