131

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

واقفان حال کہتے ہیں کہ بات قہقہوں سے شروع ہوئی اور قہقہوں پر ہی ختم ہوگئی۔ بات ملاقات میں عیادت کیلئے آنے والوں سے شروع ہوئی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان کی بزرگ سیاستدان اور سابق نگران وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ لاہور میں ملاقات ہوئی۔ چوہدری شجاعت بہت زیرک سیاستدان ہیں، اصولوں پر ڈٹ جانے والے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ وہ پرویزمشرف کے دور حکومت میں صرف دو ماہ تک وزیراعظم پاکستان رہے۔ انہیں میر ظفراللہ خان جمالی کے استعفے کے بعد وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔ چوہدری ظہور الٰہی شہید کے خانوادےکا سیاسی قد کاٹھ بڑا ہے۔ اپنے مختصر دور اقتدار میں انہوں نے بہت سے سیاسی کام کیے۔چوہدری شجاعت نے کہا تھاکہ کالا باغ ڈیم کو کسی بھی نام سے پیلے، سیاہ یا کسی دوسرے نام سے تعمیر کیا جائے یہ ڈیم بننا ضروری ہے ,اسی ڈیم کی بازگشت گزشتہ دنوں سنائی دی جب چوہدری مونس الٰہی نے کالا باغ ڈیم بنانے کی ایک بار پھر حکومت کوتجویز دی۔ چوہدری شجاعت حسین نے حدود قوانین کی ترامیم اسلامی نظریاتی کونسل کوبھیجی تھیں اور انہوں نے مسجدوں میں لائو ڈ اسپیکر کے استعمال کو محدود کرنے کیلئے علما کی مشاورت سے مسودہ تیا رکرایا، ایسے کئی ایک اقدامات انکے کریڈٹ پر ہیں۔سب جماعتوں کیساتھ مل کر چلنے کی پالیسی اور ڈٹ کرکھڑے ہونے کی خاندانی روایت کو آگے بڑھانے والا یہ خاندان اب حکمران جماعت پی ٹی آئی کےساتھ کھڑا ہے۔ سب سیاستدان اور پارٹیوں کے سربراہان انکی عیادت کے بہانے سیاسی تعاون حاصل کرنے جاتے ہیں وہ بھی خوب خاطر مدارت کرتے ہیں لیکن فوری وعدہ نہیں کرتے۔ عمران خان بھی عیادت کے بہانے ہی گئے تھے اور حیرت انگیز طور پر انہوں نے سیاسی تدبر اور فہم کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدم اعتماد کا ذکر تک نہیں کیا۔

عمران خان نے چوہدری شجاعت سے کہا کہ آپ مجھ سے اور میں آپ سے جدا نہیں ہیں، چھوٹی موٹی چیزیں چلتی رہتی ہیں، میں اور ساتھی بالکل نہیں گھبرا رہے۔عمران خان کی اس بات پر بھی حاضرین نے قہقہہ لگایا۔ اب بات قہقہوں سے آگے جارہی ہے عدم اعتماد لانے والوں(مولانافضل الرحمٰن) نے نمبر پورے کرنے کا دعویٰ کردیا ہے کہ عدم اعتماد اب آئی کہ تب آئی، اس ہلے گلے سےسیاسی ٹمپریچر تیزی سے بڑھایا جارہا ہے۔ اب وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیش نظر روٹھے اور مانے ہوئے اتحادیوں کے ساتھ براہ راست رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے، انہوں نے لندن گئے ہوئے اپنے ناراض ساتھی جہانگیر خان ترین کیساتھ ٹیلی فونک رابطہ کرتے ہوئے ان کی صحت کےبارے میں دریافت کیا۔ اس سے پہلے ان کےساتھ اپوزیشن جماعتوں نے بھرپو رسلسلہ جنبانی شروع کررکھا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ بس ابھی پی ٹی آئی کی حکومت عدم اعتماد کا شکار بن کر قصہ پارینہ ہو جائے گی یہ تاثر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے دیا گیا تھا۔اسی طرح اپوزیشن لیڈر شہبازشریف، نوازشریف، آصف علی زرداری، مولانافضل الرحمٰن بھی شیر وشکر ہوچکے ہیں جو کل تک ایک دوسرے کا پی ڈی ایم میں ساتھ تک چھوڑ چکے تھے، انہوں نے عمران خان کی سب سے بڑی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق میں بھی نقب لگانے کی کوشش کی اور چوہدری برادران سے میل ملاقاتیں بھی کیں۔ حکومتی کیمپ سے یہ کہاگیا کہ ان جماعتوں کی قیادت کو اب چوہدری شجاعت حسین کی صحت دریافت کرنا یاد آئی، پہلے وہ کہاں تھے ؟ اسی طرح اب اپوزیشن بھی یہی کہے گی کہ عمران خان نے بھی تو بیمار پرسی کو بہانہ بنایا ہے اصل مقصد تو حمایت پکی کرنا تھا لیکن کیا کریں کہ یہ پاکستانی سیاست کاکھیل ہے۔ قطع نظر اس کے کہ مسلم لیگ( ق )کے تحفظات اپنی جگہ درست ہیں اور انہوں نے ابھی تک اپوزیشن جماعتوں سمیت کسی کو کوئی واضح یقین دہانی نہیں کرائی ہے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک میں ساتھ دینگے یا نہیں، دراصل وہ ہوا کا رخ دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرف چل رہی ہے۔ اسی تناظر میں وزیر اعظم لاہورگئے چوہدری شجاعت حسین اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالٰہی سے مختصر ملاقات کے بعد واپس روانہ ہوگئے۔یہ سلسلہ اب دراز ہورہا ہے اور وزیر اعظم نے اتحادی جماعت مسلم لیگ ق سے رابطے کے بعد اب اپنی دیگراتحادی جماعتوں سے بھی ملاقات کا فیصلہ کیا ہے اور امکان یہی ہے کہ اگلے مرحلے میں وہ ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنمائوں سے بھی جلد ملاقات کریں گے۔

جماعت اسلامی کیساتھ پی پی پی کی محبت کا سلسلہ بھی بڑھ رہا ہے جبکہ جماعت اسلامی نے بھی چوہدری برادران سے ملاقات کی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ ق لیگ اور ایم کیو ایم والے تو ہیں ہی ہمارے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے کچھ دوستوں سے بھی رابطہ ہوا ہے۔

وزیراعظم کرکٹ کے بین الاقوامی سطح کے کھلاڑی رہے ہیں،ہر قسم کی پچ پر کھیلنے کا عملی تجربہ رکھتے ہیں سیاسی پچ پرتین سال سے کھیل رہے ہیں، وہ تھکتے نہیں ہیں اور آخری بال تک کھلتے ہیں اپوزیشن انہیں کیچ آؤٹ کرنا چاہتی ہےانکی اکا دکا وکٹیں بھی گررہی ہیں یا گرانے کی سر توڑ کوشش کی جارہی ہے۔ عو۔ میچ کا فیصلہ کس ٹیم کے حق میں ہوتا ہے۔ ہمیں تومارچ نہیں اپریل مئی تک بات جاتی نظر آرہی ہے، آپ کو کیا لگتا ہے؟

 

بشکریہ جنگ 

بشکریہ جنگ نیوزکالم