183

 یااللہ حضرت امام حسین  کا صدقہ اُمتِ محمدیہ ۖ پر رحم فرما 

حذیفہ یمان روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے عالم میں مسجد میں داخل ہوئے کہ امام حسین علیہ السلام آپ کے شانے پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ امام حسین علیہ السلام کے پیروں کو اپنے سینے پر دبا رہے تھے،آپ نے فرمایا میں جانتاہوں آپ لوگ کس مسئلے کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں (آپ ۖ  کی مراد آپ کے بعد بہترین افراد سے تھی)یہ حسین ابن علی ہیں جن کی دادی بہترین دادی ہیں ان کے جد محمد رسول اللہ سید المرسلین ہیں ان کی نانی خدیجة بنت خویلد وہ پہلی خاتون ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائی تھیں،یہ حسین ابن علی ہیں جن کے والدین بہترین والدین ہیں ان کے والد علی ابن ابی طالب ہیں جو رسول خدا کے بھائی وزیر اور چچازاد بھائی ہیں اور وہ پہلے شخص ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے تھے،اور ان کی والدہ فاطمہ بنت محمد سیدة النساء العالمین ہیں۔ یہ حسین ابن علی ہیں جن کے چچا اور پھوپھی بہترین چچا اور پھوپھی ہیں ان کے چچا جعفر ابن ابی طالب ہیں جنہیں خدا نے دو پرعطا کیے ہیں جن سے وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں پرواز کر کے جا سکتے ہیں۔ ان کی پھوپھی ام ھانی بنت ابی طالب ہیں۔ یہ حسین ابن علی ہیں جن کے ماموں اور خالہ بہترین ماموں اور خالہ ہیں۔ ان کے ماموں قاسم ابن رسول اللہ ہیں اور خالہ زینب بنت رسول اللہ ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ۖنے حسین کو اپنے شانے سے نیچے اتارا اور فرمایا اے لوگو یہ حسین ہے جس کے دادا اور دادی بہشت میں ہیں اس کے ماموں اور خالہ بہشت میں ہیں اور یہ بھی اور اس کا بھائی بھی بہشتی ہیں۔
 حضرت سیّدنا امام حسین   رضی اللہُ عنہ  کے بچپن ہی میں آپ کی شہادت کی خبر پھیل گئی تھی، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت سیّدنا جبریل امین  علیہ السّلام   رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم   کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ امام حسین  رضی اللہُ عنہ   بھی حاضر بارگاہ ہوگئے اور آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم  کی مبارک  گود میں بیٹھ گئے۔ جبریل امین  علیہ السّلام نے عرض کی:'' آپ  کی اُمّت آپ کے اس بیٹے کو شہید کردے گی۔'' جبریل امین  علیہ السّلام  نے بارگاہ رسالت میں مقامِ شہادت کا نام بتاکر مٹی بھی   پیش کی۔ (معجم کبیر، 3 / 108، حدیث: 2817 ماخوذاً)
حضرت  امام حسین  رضی اللہُ عنہ کی ایک خاص فضیلت یہ بھی ہے کہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اپنے لختِ جگر حضرت ابراہیم  رضی اللہُ عنہ کو ان پر قربان فرمایا چنانچہ مروی ہے کہ ایک روز حضور پرنُور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم  کے دائیں زانو مبارک پر امام حسین اور بائیں پر حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم  کے  صاحبزادے حضرت ابراہیم  رضی اللہُ عنہ بیٹھے تھے، حضرت جبریل  علیہ السّلام نے حاضر ہوکر عرض کی: ان دونوں کو اللہ  پاک    حضور کے پاس(اکٹھا) نہ رکھے گا ایک کو اختیار فرمالیجئے۔ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم  نے امام حسین  رضی اللہُ عنہ کی جدائی گوارا نہ فرمائی، تین دن کے بعد حضرت ابراہیم  رضی اللہُ عنہ کا وصال  ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد  حضور نبیِّ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم  جب  آپ کو آتا دیکھتے تو بوسہ دیتے، سینے سے  لگالیتے اور فرماتے:'' فَدَیْتُ مَنْ فَدَیْتُہُ بِابْنِی اِبْرَاہِیمَ'' یعنی میں اس پر قربان کہ جس پر میں نے اپنا بیٹا ابراہیم قربان کیا۔ (تاریخ بغداد، 2 / 200)
حضرت امام حسین  آپ کی ایک خصوصیت بیان کرتے ہوئے حضرت علّامہ جامی  رحمةُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضرت امامِ عالی مقام سیِّدُنا امامِ حُسین  رضی اللہُ عنہ  کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارَک پیشانی اور دونوں مقدّس رُخسار (یعنی گال) سے انوار نکلتے اور  قرب و جوار ضِیا بار (یعنی اطراف روشن) ہو جاتے۔ (شواہد النبوة فارسی، ص228)
 آپ  رضی اللہُ عنہ نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم  کے مشابہ تھے جیساکہ حضرت علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا  کرّم اللہُ وجہہ الکریم فرماتے ہیں: جس کی یہ خواہش ہو کہ وہ ایسی ہستی کو دیکھے جو چہریسے گردن تک سرکار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم  کے سب سے زیادہ مُشابہ ہو وہ حَسن بن علی  رضی اللہ عنہما  کو دیکھ لے اور جس کی یہ خواہش ہو کہ ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے ٹخنے تک رنگ و جَسامت میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم  کے سب سے زِیادہ مُشابہ ہو وہ حُسین بن علی  رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے۔ (معجم کبیر، 3 / 95، حدیث: 2768)
آخر میں  اللہ تعالیٰ سے دعا ہے یااللہ ان مقدس ہستیوں کا صدقہ ہمارے کبیرہ صغیرہ گناہوں کو معاف فرما اور پیارے نبی خاتم النبیین حضرت محمد ۖ کا سچا پیار نصیب فرما ، یااللہ پاک جن ہستیوں سے امام الانبیاء پیار کرتے ہیں ان کا پیار نصیب فرما۔ یااللہ حضرت امام حسین  کا صدقہ اُمتِ محمدیہ ۖ پر رحم فرما آمین 
 

بشکریہ اردو کالمز