112

یوکرین روس جنگ اور امریکی پراپیگنڈا مشین !

طاقت میں توازن امن کا ازلی اصول ہے۔سرد جنگ کے بعد عالمی طاقت کا توازن بگڑا‘دنیا بائی پولر سے یونی پولر ہوئی تو امریکہ نے دنیا کے وسائل پر قبضہ کے لئے پراپیگنڈا کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔یقیناً میڈیا کو پراپیگنڈا کے طور پر ماضی میں استعمال کیا جاتا رہا مگر طاقت کا توازن پراپیگنڈا میں بھی برقرار تھا۔ واحد سپر پاور امریکہ پراپیگنڈا کو کس طرح استعمال کر رہی ہے اس کا اندازہ چینل CBSکے اینکر والٹر کرانکائٹ کے ان الفاظ سے ہو جاتا ہے۔ ’’یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہوتا ہے کہ سینکڑوں دستیاب خبروں میں سے کون سی نیوز آئٹمز کے ساتھ ہم نے اس دن کا منظرنامہ مرتب کرنا ہے‘‘ جب میڈیا خبر دینے کے بجائے خبر بنانا شروع کر دے تو سچ پراپیگنڈا کے سمندر میں سوئی بن کر رہ جاتا ہے ۔ امریکہ میڈیا انڈسٹری کو کیونکراستعمال کرپاتا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ 1983ء تک امریکہ کا 90فیصد میڈیا 50 بڑی کارپوریشنز کے قبضے میں تھا مگر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد آج امریکی میڈیا کو صرف 6بڑے گروپ کنٹرول کر رہے ہیں۔یہ چھ گروپ کس قدر طاقت ور ہیںاس کااندازہ ان کے سالانہ منافع سے ہو جاتا ہے۔ان کی 2020ء کی سالانہ آمدنی 4 سو بلین ڈالر تھی۔ اے ٹی ٹی نے اس سال 181.2بلین ڈالر کمائے Comcostکی آمدن 108.94بلین ڈالر ,کوڈزنی والٹ کی 69.57 بلین امریکی ڈالرتھی تو چارٹر کمیونی کیشن نے 43.63 ،فاکس سنچری نے 30.1اور WPPنے 16.74بلین ڈالر منافع کمایا۔ امریکہ ان میڈیا گروپوں کی طاقت سے عالمی میڈیا کو پراپیگنڈا مشین کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ نے جن ممالک پر حملہ کرنا یا ان میں حکومتیں تبدیل کرنا ہوں ان ممالک کے عوام کی برین واشنگ اس انداز سے کی جاتی ہے کہ مقامی لوگ اپنی حکومتوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں اور نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی سے خود کو تباہ کر لیتے ہیں۔ لیبیا و یمن اس کی زندہ مثالیں ہیں۔یوکرائن جنگ میں امریکی پراپیگنڈا کھل کر اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔جنگ کے دوسرے روز جب یوکرائن کے صدر کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے تو انہوں نے ویڈیو پیغام میں کہا ’’میں نے جنگ سے پہلے 27ممالک کے سربراہان سے بات کی سب نے یوکرائن کے ساتھ کھڑا ہونے کی یقین دہانیاں کروائیں، مگر جب طبل جنگ بجا تو یوکرائن کے عوام کو مرنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا گیا۔امریکی انتظامیہ نے زیلنسکی کے بیان کو فوراً بھانپ لیا اور لڑکھڑاتے زیلنسکی کو یوکرائن کا ہیرو بنا کر اس حد تک ہوا بھری کہ زیلنسکی نے صدر بائیڈن کی یوکرائن سے نکلنے کی مدد کی پیشکش کے جواب میں یہ کہا’ ان کے لئے فلائٹ نہیں فائٹ کی ضرورت ہے‘۔ یہ میڈیا پراپیگنڈا ہی کی طاقت ہے کہ 2014ء سے یوکرائن کے علاقوں لوہانسک اور ڈونسٹک میں جاری روس نواز نسل کشی سے اور ان شہروں میں سینکڑوں اجتماعی قبروں سے دنیا بے خبر ہے۔ امریکی پراپیگنڈا مشین روس کے 6ہزار سے زائد فوجیوںکی ہلاکت، سینکڑوں جنگی جہازوں اور ہزاروں ٹینکوں کی ناقابل تصدیق خبروں کا پراپیگنڈا کر کے یوکرائن کے عوام کو روس کے خلاف جنگ کے لئے اکسا رہی ہے۔ ایک طرف عام شہریوں کو روسی ٹینکوں پر پٹرول بم پھینک کر تباہ کرتے دکھایا جا رہا ہے تو دوسری طرف روس پر یوکرائن کی شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے تشہیر کی جا رہی ہے۔ مگر جب 9روز میں یوکرائن میں جانی نقصان کی بات ہوتی ہے تو اقوام متحدہ کا ادارہ 350 سے آگے گنتی نہیں بڑھا پاتا۔ عام شہریوں کے روسی ٹینک پر پٹرول بم پھینکنے کے عمل کی تشہیر تو کی جاتی ہے مگر ویڈیو جاری کرتے وقت یہ بھول کی جاتی ہے کہ پٹرول بم کے بعد ٹینک میں آگ لگنے کے باوجود روس کی فوج کی جانب سے حملہ آوروں کی گاڑی کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ یہ ویڈیو روسی فوج کی جانب سے عام شہریوں کے قتل عام کے دعوئوں کی نفی بھی کر سکتی ہے۔ جعلی خبروں اور بے بنیاد الزامات کی بنا پر امریکی خواہش کے مطابق پراپیگنڈا مشین پوری طرح متحرک اور دھڑلے سے کا م کر رہی ہے۔ عالمی میڈیا پر کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ہی کمال ہے کہ نا صرف امریکہ اور اس کے اتحادی بلکہ غیر جانبدار ممالک کا میڈیا بھی امریکی پراپیگنڈا مشین کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے ۔دور کیوں جائیں بھارت کو ہی دیکھ لیں! بھارت کی روس سے 70برس سے زائدتک شراکت داری رہی یہاں تک کہ یوکرائن جنگ میں بھی بھارت نے سلامتی کونسل میں روس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ جنرل اسمبلی میں پانچ ممالک روس کے حق میں جب 35ملکوں بشمول بھارت اور پاکستان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔امریکہ مغربی ممالک کے ذریعے چین کو روس کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو خود امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن نے بھارتی وزیر خارجہ کو روس کے خلاف ووٹ دینے پر قائل کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ یہاں تک کہ نیو یارک ٹائمز نے بھارتی رویہ کے حوالے سے اپنے مضموں میں یہ لکھ دیا’ بھارت کے خلاف امریکی اقدامات بھارت کو یوکرائن کے حوالے سے موقف تبدیل کرنے پر مجبور کرنے میں ناکام۔‘ یہ امریکی پراپیگنڈا مشین کا ہی کمال ہے کہ بھارتی حکومت کے یوکرائن کے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کے فیصلے کے باوجود بھارتی میڈیا ہائوسز وار روم بنا کر یوکرائن جنگ کے حوالے سے امریکہ کی پراپیگنڈا مشین بنے ہوئے ہیں۔ بھارتی ٹی وی ’’آج تک‘‘ کی پالیسی کا اندازہ اس امر سے ہو جاتا ہے کہ یوکرائن جنگ کے بارے میں تبصروںکے لئے جن سابق فوجی افسروں کو بلاتے ہیں ان کو روس مخالف جملوں کے لقمے دیئے جاتے ہیں۔ کوئی حقائق بیان کرے تو بات کاٹ دی جاتی ہے۔مبصر کو روسی ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ جنرل بخشی کو ٹی وی پروگرام چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ زی نیوز پر جنرل اشوک کمار، اے جے ملہوترا یوکرائن کے دعوئوں کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ٹی وی 9روس کی شکست اور پوتن کی بوکھلاہٹ کا پرچار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جنگ کے آٹھویں روز یوکرائن میں بھارتی طالبہ فرزانہ جب یہ کہتی ہے کہ سینکڑوں بھارتی طالب علم گھنٹوں سے ٹرین میں سوار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یوکرائن کے لوگ یہ کہہ کر ان کو ٹرین میں سوار ہونے سے روک رہے ہیں کہ’ یہ ٹرین بھارتیوں کے لئے نہیں‘۔ بھارتی جنرل ان کو پیدل خارکیف سے نکلنے کی صلاح دیتے ہیں مگر بھارتی میڈیا یوکرائن اور امریکی اقدامات کا پرچار کرتے نہیں تھکتا۔ بھارتی میڈیا کو جنگ کے 9روز بعد پوٹن کے کانفرنس سے پتہ چلتا ہے کہ یوکرائن نے 3ہزار بھارتی طلبا کو یوکرائن کے شمالی علاقوں میں یرغمال بنا رکھا ہے ۔ یوکرائن چین بھارت سمیت غیر ملکیوں کو انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔( جاری ہے)

بشکریہ  92 نیوز

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز