266

ہجرت کی کہانی .....دادا جان کی زبانی " 


   کسی ایک  جگہ سے دوسری جگہ یا ایک وطن سے دوسرے وطن منتقل ہونے کو ہجرت کہا جاتا ہے ۔ ہجرت کے کئی اسباب ہیں  ان میں سے مذہبی ، سیاسی اور معاشی حالات کا ناسازگار ہونا ہجرت کے نمایاں اسباب ہیں ۔ خطہ کشمیر جس کے  حسن و وجمال میں کوئی ثانی نہیں اس خطے میں عرصہ دراز سے کشمیری آزادی کی جدوجہد کا خواب لیے ہر طرح کی قربانی دے رہے ہیں ۔ قیام پاکستان کےبعد  ہزاروں کشمیری  گھرانے ہجرت کر کے بیس کیمپ آزادکشمیر داخل ہوئے  اور آج بھی یہاں مذہبی معاشی و سیاسی   آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ۔
        میرے دادا جان "عبدالغنی ڈار " نے مقبوضہ جموں  کشمیر کے  گاؤں ساوجیاں ضلع پونچھ تحصیل حویلی سے  1991ء میں  ہجرت کی ۔ان سے تمام ہجرت کی داستان سنی اور معلوم ہوا مہاجر ہونا آسان نہیں اور نہ ہی ہر کسی کو یہ سعادت مل سکتی ہے بقول شاعر : 

   مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں

کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں
(منور رانا ) 
    1989ء میں  جب تحریک آزادی کشمیر تیزی سےزور پکڑ رہی تھی بہت سے مجاہدین مقبوضہ جموں کشمیر  میں ظالموں کو جہنم واصل کر رہے تھے اور اپنی جان کا نذرانا پیش کر رہے تھے اسی دوران میں انڈین آرمی کی ناپاک نگاہیں میرے تایا جان " اسلم ڈار " پر پڑی اور یہ الزام لگایا گیا کہ آپ مجاہدین کے معاون  ہیں ۔ بعدازاں تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر موقع کی مناسبت سے تایا جان نے مقبوضہ وادی کشمیر سے ہجرت کی اور بیس کیمپ آزادکشمیر میں داخل ہوئے ۔ جب تایا جان اس پار آئے تو انڈین آرمی مزید آگ بگولا ہو گئی اور راقم کے والد محترم ( محمد رفیق ڈار ) اور دادا جان کو نظر بند کر دیا اور تشدد کا نشانہ بنایا اور کہا گیا اسلحہ اور اور محمد  اسلم ڈار کو ہمارے حوالےکرو نہیں تو نامعلوم مقام پر منتقل کیا جائے گا اور وہاں سخت سزا دی جائے گی تو رات کو موقع کی تلاش شروع کی اور صبح جب پہرہ دانوں نے ذرا سی غفلت کی تو آپ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔ میرے دادا جان اپنے اہل خانہ کے ہم راہ ہجرت کے سفر پر روانہ ہوئے نہ پاؤں میں چپل , نہ بدن پر نئے کپڑے اور بھوک و پیاس سے نڈھال اپنے دیگر پیاروں کو ,  اپنی اس دھرتی ماں  کو رخصت کرتے ہوئے بیس کمیپ آزادکشمیر میں داخل ہوئے جہاں سوائے کلمہ طیبہ کے کسی کے ساتھ کوئی اور رشتہ استوار نہ تھا ۔ بیس کیمپ آزادکشمیر کے علاقہ کالو ٹھیری کوپرا پہاڑ پر واقع " صدیق پوسٹ " پر پہنچنے تک کئی خطرناک راستوں سے گزرنا پڑا اور انڈین آرمی نے  فائرنگ کی کوشش کی مگر پاک آرمی نے وہ ناکام بنائی کیوں کہ  سب منظر ان کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا ۔  جب پاک آرمی کے پاس پہنچے تو ساری داستان ان کے سامنے بیان کی اور پھر آپ سب کو  سپاہیوں کے ہمراہ  کیلر منتقل کیا گیا ۔
     کیلر میں دادا جان کی ملاقات تایا جان سے بھی ہو گئ ,محسن اداروں  نے آپ کی تفصیل معلوم کی اور ساری داستان رقم کی  اور  کہوٹہ تھانہ میں سب کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد کچھ ضروریات زندگی کا سامان دیا۔  اس وقت حکومت کی جانب سے  ماہانہ 65 روپے ماہوار گزارہ  الاؤنس مقرر کیا گیا جو آج 2000 ہے  ۔ کہوٹہ تھانہ سے روانگی کے بعد پلنگی کہوٹہ میں تشریف لائے اور شبیر راٹھور(مرحوم)کے گھر پناہ کی درخواست کی اور انھوں نے خوشی کا اظہار کیا اور پناہ دینے کے ساتھ ہرجائز ضرورت بھی پوری کی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دی آج بھی ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہیں ۔
       دادا جان  اہل خانہ کے ساتھ جب اس پار ہجرت کی تو انڈین آرمی سکون سے نہ بیٹھی اور سارا غصہ ہمارے وہاں موجود عزیز و اقارب پر نکالا انھیں نظر بند کیا تفتیش شروع کی اور پھر آئے روز تنگ کرنا شروع کیا ۔ جب انھوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی کہ اگر ہمیں یوں ہی تنگ کیا گیا ہم بھی ہجرت کرنے سے گریز نہیں کریں گے پھر کچھ نرمی برتی گئ ۔
   پلنگی ایک سال  قیام کے بعد آپ سمنی ضلع باغ تشریف لائے اور پھر یہاں سے چمیاٹی خورشید عباسی صاحب کے گھر قیام پذیر ہوئے ۔ ارشد عباسی جو کہ اس وقت بلدیہ کا فرض شناس آفیسر تھا ان کے ذریعے  خورشید عباسی صاحب تک رسائی ممکن ہوئی۔  سلیم بسمل راتھر صاحب اس وقت ڈپٹی کمشنر کوٹلی تھے ان کی زیر نگرانی یہ منتقلی ہوئی ۔ یقینا یہ لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخروہوں گے جنھوں نے مشکل وقت میں ہمیں سہارا  دیا۔  چمیاٹی تین سال قیام کے بعد اوچھاڑ ضلع باغ میں محمد سلیم خان ( سابق صدر انجمن تاجران ) کے گھر کچھ عرصہ قیام کیا اور پھر  1995ء میں ٹکسیلا کے مقام پر گھر تعمیر کیا جو بعد ازاں فروخت کر دیا تھا کیوں کہ حکومت کی جانب سے 2000ء میں منگ بجری(  ضلع باغ تحصیل دھیرکوٹ ) کے مقام پر رہائش کے لیے جگہ فراہم کی گئی ۔ یہاں پر آج 360 سے زائد مہاجرین گھرانے آباد ہیں ۔  اس وقت 30 ٹین کی چادریں اور ایک ٹینٹ حکومت کی جانب سے فراہم کیا گیا اور دادا جان اور والد محترم نے محنت مزدوری کر کے گھر کی تعمیر مکمل کی اس وقت 200 روپے مزدور کواجرت دی جاتی تھی ۔
      یقینا مشکل وقت میں جو انصار بھائیوں ، حکومت اور پاک  آرمی نے  مدد کی مہاجرین جموں کشمیر اس کے شکرگزار رہیں گے اور خاص طور پر ان تمام انصار بھائیوں کا شکرگزار ہوں جنھوں نے مشکل وقت میں چھت فراہم کی اللہ پاک دنیا و آخرت دونوں  جہانوں میں آپ کوسرخرو کرے آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور اس بہترین خدمت پر اجر عظیم عطا کرے  ۔آمین۔

بشکریہ اردو کالمز