585

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کا متنازع ترین فیصلہ

اسلام آباد ہائیکورٹ میں2021کا زیر سماعت کیس نمبر 4227 کا فیصلہ 3مارچ 2022کو فاضل جج جسٹس بابر ستار نے سنادیا جسٹس بابر ستار نے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ قرآن وسنت ،فقہاء امت سے ہٹ کر انتہائی بوسیدہ دلائل کو بنیاد بنا کر اپنے فیصلے میں یہ کہا کہ 18سال سے کم عمر میں شادی کی وجہ سے نکاح فسخ کیا جاتا ہے اور اس شادی کیوجہ سے لڑکا لڑکی کے جو تعلقات قائم رہے وہ زنا بالرضا کہلائے گا دوسرے الفاظ میں اس شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو ناجائز اولاد کہا جائے گا 

واضح رہے کہ فاضل جج اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ہیں انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس کی حیثیت سے یہ فیصلہ سنایا حالانکہ اسلام آباد سمیت ملک بھر میں صوبہ سندھ کے علاؤہ ابھی تک 1929کاایکٹ نافذ ہے جسکے مطابق شادی کے لئے کم از کم عمر 16سال متعین ہے لیکن جسٹس بابر ستار نے اس کو 18سال قرار دیکر قانون کی واضح طور پر مخالفت کی ہے 

البتہ صوبہ سندھ میں 2014میں 1929والے ایکٹ میں ترمیم کرکے کم ازکم شادی کی عمر لڑکی کے لئے 18سال قرار دی گئی تھی اور اسکی خلاف ورزی کیصورت میں سزا کو بڑھاتے ہوئے ایک ماہ قید کے بجائے تین سال قید اور جرمانے کو بڑھاتے ہوئے ایک ہزار سے بڑھا کر  پنتالیس ہزار رکھا گیا تھا 

اب محترم فاضل جسٹس بابر ستار سے سوال یہ ہے کہ آپ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کی حیثیت سے صوبہ سندھ کی اسمبلی کے پاس کردہ ایکٹ کو کس طرح بنیاد بنایا 

حالانکہ بقیہ تین صوبوں کی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی نے 1929والے نافذ مذکورہ ایکٹ میں کوئی ترمیم نہیں کی 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس بابر ستار کی قانون پر کتنی نظر ہے ۔۔۔۔؟

وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کی حیثیت سے انہوں نے کس ایکٹ کو بنیاد بناکر فیصلہ کرنا ہے ہوسکتا ہے انکے اگلے فیصلے نئی دہلی کی ترامیم کے مطابق ہوں ۔۔۔

یہ تو تھی اس فیصلے پر پاکستان کے قانون کی واضح خلاف ورزی 

اب آتے ہیں کہ قرآن وسنت کی جانب تو واضح رہے کہ فاضل جج نے قرآن وسنت سے بالکل متصادم فیصلہ کیا ہے 

سورۃ الطلاق کی آیت نمبر 4میں ان عورتوں کی عدت بیان کی گئی ہے جنکو مخصوص ایام پیش نہیں آتے بڑھاپے کیوجہ سے اور انکی بھی جنکو ابھی تک کم سنی کیوجہ سے مخصوص ایام نہیں آئے تو حکم یہ ہے کہ ان دونوں طرح کی مطلقہ کے لئے عدت تین ماہ ہے مخصوص ایام کا اعتبار نہیں 

چنانچہ ارشاد باری ہے والئ یئسن من المحیض من نسائکم ان ارتبتم فعدتھن ثلاثۃ اشھر والئ لم یحضن 

تو جناب والا جو مطلقہ لڑکیاں ہیں جنکو ابھی تک مخصوص ایام پیش نہیں آئے انکو طلاق ہوگئی تو قرآن کریم میں انکی عدت بیان کی گئی اس سے معلوم ہے کہ ان کا نکاح درست ہوا تھا تب ہی انکی عدت کو بیان کیا گیا 

لہذا فاضل جج کا یہ فیصلہ قرآن کریم کی واضح آیت مبارکہ کے بھی منافی ہے پھر 18سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ نکاح کے بعد قائم تعلقات کے متعلق فاضل جج کے یہ الفاظ کہ یہ زنا بالرضا ہے یہ الفاظ قرآن وسنت پر بہت بڑی جسارت ہے کیونکہ واضح حلال کو حرام کہنا یہ اسلام کو مشکوک کردیتا ہے بقیہ معاملات پر مفتیان عظام سے رجوع کیا جائے۔۔۔؟

جج صاحب کو چاہیے کہ توبہ واستغفار کرتے ہوئے فورا رجوع کریں ۔۔اور اپنے نکاح اور اسلام سے متعلق اپنے معتمد عالم دین سے استفسار کریں 

 کیونکہ فاضل جج جسٹس بابر ستار نے سنگین نوعیت اورجہالت پر مبنی فیصلہ  دیا ہے 

ممکن ہے انکی دینی تعلیم نہ ہو لیکن انکو چاہیے تھا اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی ایڈوائس لی جاتی 

لیکن نہ جانے کیوں یہ ججز فیصلہ دیکر معلومات لیتے ہیں اسی لئے ہماری  عدلیہ کا معیار دنیا میں سوا سو سے تجاوز کرگیا ہے ججز کو سہولتیں دینے میں پاکستان پہلے دس نمبر  پر ہے اور ججز کے انصاف پر مبنی فیصلے دینے کے اعتبار سے پاکستانی عدلیہ سوا سو کو کراس کر چکی ہے یہی سلسلہ جاری رہا تو دنیا میں شائد ہماری عدلیہ کا آخری نمبر ہوگا جس سے آگے بحر ظلمات شروع ہوگا

اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں جہالت کے اندھیروں سے نکالے

زندگی باقی ایکشن باقی

بشکریہ اردو کالمز