79

امن اور جنگ

روس کے عظیم ادیب ٹالسٹائی کا شہرہ آفاق ناول ’’امن اور جنگ‘‘ (War and Peace) ہے۔ اس ناول میں کرداروں اور حالات کے معرفت ٹالسٹائی نے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ امن کس قدر خوبصورت اور جنگ کس قدر بدصورت چیز ہے۔اس حقیقت کو یورپ سے زیادہ اور کون سمجھ سکتا ہے۔ وہ یورپ جس نے گذشتہ صدی کے دوران دو عالمی جنگیں لڑیں اور ان جنگوں میں اتنے لوگ لقمہ اجل ہوئے کہ اب تک ان کی اصل گنتی بھی نہیں ہو سکی۔ یورپ میں لکھا جانے والا ادب اب تک ان دو جنگوں سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکا۔ کیوں کہ ان جنگوں میں اہلیان یورپ کو بتایا گیا کہ جنگ میں صرف انسان نہیں مرتے بلکہ جنگ میں ارمان بھی مر جاتے ہیں۔ جنگ میں احساس بھی مرجاتے ہیں۔ جنگ میں خواب میں مر جاتے ہیں۔ جنگ بہت ہولناک چیز ہوا کرتی ہے۔ یورپ مجموعی طور پر جنگ کے تلخ تجربے سے آگاہ ہے مگر جنگ کا زہر آلود ذائقہ جس قدر روس کے حصے میں آیا ہے، اتنا کسی مغربی ملک کے حصے میں نہیں آیا۔ابھی کل کی بات ہے کہ روس نے افغانستان میں جنگ لڑی اور اس جنگ میں روس پر اتنے زخم لگے کہ اس کا وجود ہی بکھر گیا۔ اس حوالے سے ماضی میں جو روسی نوجوان فوجیوں کے بارے میں کتاب لکھی گئی ہے وہ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ روس نے یوکرائن پر حملہ کردیا اور دنیا کے دہشت زدہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ کیا تیسری جنگ عظیم شروع ہونے والی ہے؟ کیوں کہ امریکہ اور برطانیہ نے تو یوکرائن پر کیے گئے روسی حملے کے خلاف روس کو اتنے انتباہ دیے کہ لوگوں کو خوف محسوس ہوا کہ یہ جنگ یوکرائن اور روس تک محدود نہیں رہے گی۔ اس جنگ میں اگر نیٹو افواج نے بھی حصہ لیا تو یورپ ایک بار پھر جنگ کے شعلوں میں جلتا نظر آئے گا۔ یورپ نے جنگ کے ایسے تلخ تجربات کیے ہیں،جو آج تک ایشیا اور افریقہ نے نہیں کیے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عام طوپر پر مغرب اور خاص طور پر یورپ اب تک نہیں سمجھ سکا کہ وہ جس جنگ میں پھرسے کودنے کی کوشش کر رہا ہے وہ جنگ ایسی نہیں تھی جو جنگ انہوں نے گزشتہ صدی میں لڑی تھی۔ گزشتہ صدی کے بعد یورپ نے کوئی بڑی جنگ تو نہیں لڑی مگر یورپی ممالک نے جنگ کے اتنے مہلک ہتھیار ایجادکیے ہیں کہ ان ہتھیاروں کی وجہ سے نہ صرف دھرتی پر موجود انسانوں بلکہ اس دھرتی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ جدید جنگی ہتھیاروں کی وجہ سے دھرتی کے گولے کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔اس لیے روس کی طرف سے جب یوکرائن پر حملہ ہوا تب پوری دنیا میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ کیوں کہ روس معاشی طور پر امریکہ اور چین کا مقابلہ بھلے نہ کر پائے مگر وہ ہتھیاروں کی سائنس میں کسی طور پر بھی امریکہ یا چین سے کم نہیں ہے۔ روس کے پاس آج بھی اتنے ایٹمی بم ہیں ،جو دھرتی کو ختم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس لیے دنیا میں شدید خوف ہے کہ کہیں یہ جنگ یوکرائن کی سرحدوں سے نکل کر پوری دنیا میں نہ پھیل جائے۔ویسے بھی کسی مغربی ادیب نے کتنے کام کی بات کی ہے کہ جنگ کو ہم شروع تو کرسکتے ہیں مگر جنگ ہم کنٹرول نہیں کرسکتے۔ یہ ایک بہت خطرناک بات ہے۔ اس وقت دنیا کے ممالک ایک ایسی ترکیب میں چل رہے ہیں جن کا خود ان کو بھی نہیں پتہ کہ اس سفر کی منزل کون سی ہے؟ دنیا کبھی سردجنگ کی آغوش میں سانس لیتی تھی تو ایک طرح سے لوگوں کو یہ آسرا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے نظریاتی کردارادا کر رہے ہیں۔ حالانکہ سردجنگ کے بعد ان کو شدت سے محسوس ہوا کہ نظریہ تو محض ایک چوسنی تھی جس کو انسانیت چوس رہی تھی۔ اصل مفادات تو اور تھے۔ پوری دنیا کے انسانوں کو ابتدا سے یہ افسوس رہا ہے کہ ان کے ساتھ ہمیشہ سے دھوکے ہوئے ہیں۔ انہیں دکھایا کچھ اور گیا ہے اور دیا کچھ اور گیا ہے۔ مگر اس وقت دنیا اس دھوکے سے نکل آئی ہے اور اب دنیا کے ممالک اپنے اپنے مفادات کی باتیں کھل کر کر رہے ہیں۔ یہ وہ دور نہیں ہے کہ عالمی سیاست سمجھنے کے لیے سفید بالوں والے پروفیسر اور دانشور درکار ہوں۔ اب تو عالمی سیاست ایک ایک بچہ سمجھتا ہے اور نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ اس پر اپنی ایک ٹھوس رائے بھی رکھتا ہے۔ جب سے روس نے یوکرائن پر حملہ کیا ہے تب سے یوٹیوب پر سینکڑوں ایسی ویڈیوز اپلوڈ ہوئی ہیں، جن میں روس اور یوکرائن کے ماضی سے لیکر حال اور حال سے لیکر مستقبل تک بہت ساری باتوں کے بارے میں کھل کر رائے پیش کی گئی ہے۔ اس وقت عام لوگ بھی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ روس نے یوکرائن پر حملہ کیوں کیا؟ روس اس بات کو ابتدا سے سمجھتا تھا کہ امریکہ اور نیٹو ممالک یوکرائن کی معرفت روس پر اپنا گھیرا تنگ کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا تھے۔ اگر روس یوکرائن پر حملہ نہ کرتا تو یوکرائن نیٹو اتحاد میں شامل ہو رہا تھا۔ نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کا مطلب یہ تھا کہ وہ پھر یوکرائن پر روس حملہ کرتا تو دنیا کے تیس ممالک مل کر روس کا مقابلہ کرتے اور اس صورت میں روس کو سخت مشکلات پیش آتیں۔ ہر ملک اپنے اپنے مفاد کے لیے دوسرے ممالک جو جنگ کی آگ میں جلانے میں کوئی دیر نہیں کرتا۔ جنگ کی آگ بہت شدید ہوا کرتی ہے۔ جنگ کی آگ میں بہت کچھ جل جاتا ہے۔ دنیا میں صحافت اور ادب نے ہمیں جنگ کی صورت انسانیت کو پیش آنے والے مصائب کے بارے میں بڑی تفصیل سے سمجھایا ہے مگر آج بھی دنیا کی بدقسمتی ہے کہ وہ ماضی سے کوئی بھی سبق سیکھنے کے لیے تیا ر نہیں ہے۔ ماضی ہم کو سمجھانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے کہ کس طرح انسانوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی انسانیت کو بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ جس ملک نے بھی جنگ لڑی ہے اس ملک کو جنگ میں لگنے والے زخموں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ زخم کتنے گہرے اور کتنی تکلیف دینے والے تھے؟ یورپی ممالک کے ادب میں جنگ میں پیش آنے والی سفاکیوں کے بارے میں بہت ساری باتیں ہیں مگر جنگ کے تلخ تجربات جس طرح روسی ادب میں موجود ہیں وہ یورپ کے کسی دوسری زبان میں نہیں ہیں۔اس لیے اس کالم کی ابتدا ٹالسٹائی کی ناول ’’امن اور جنگ‘‘ سے کی گئی۔مذکورہ ناول کی مثال پیش کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ پر صرف ٹالسٹائی نے لکھا ہے۔ جنگ پر اکثر روسی ادیبوں نے لکھا ہے اور انہوں نے صرف پہلی عالمی جنگ کے پس منظر میں نہیں لکھا بلکہ دوسری عالمی جنگ کے حوالے سے روسی ادب میں اتنا مواد ہے کہ وہ انسانیت کو پوری شدت سے محسوس کرواسکتا ہے کہ جنگ کس قدر بھیانک چیز ہے؟مگر انسانیت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان نے دوسروں کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا۔ انسان اپنا تجربہ خود کرنا چاہتا ہے اور اس تجربے کی وہ تلخ قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔آج یوکرائن میں جو کچھ ہورہا ہے کہ ماضی سے سبق نہ سیکھنے کا نتیجہ ہے اور یہ بات صرف روس تک محدود نہیں۔اس بات میں نیٹو ممالک کو بھی دعوت فکر ہے۔کیوں کہ جنگ کے عذابوں کو انہوں نے بھی جھیلا ہے۔ وہ بھی جانتے ہیں جنگ کس قدر بھیانک ہوا کرتی ہے۔ جنگ جہاں بھی ہو۔اس پر تشویش کرنا انسانیت کا اولین فرض ہے۔کیوں کہ جنگ کی آگ کو پھیلنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگتی۔جنگ کی آگ سے انسانیت کو بچاناہم سب کا فرض ہے۔

بشکریہ  92 نیوز
 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز