65

موخر ادائیگی پر تیل، روپے کی قدر اور دھابیجی

برادر اسلامی ملک جوکہ پاکستان کا مخلص دوست بھی ہے ، سعودی عرب کی جانب سے موخر ادائیگی پر تیل ملنا شروع ہو جائے گا ، اس طرح روپے کی قدر پر دباؤ میں کمی آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے اسلامی ترقیاتی بینک سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی فنانسنگ فیسلیٹی حاصل کرنے کا معاہدہ بھی کرلیا ہے۔

اس طرح آئی ڈی پی گروپ اور سعودی عرب کی جانب سے ماہانہ 20کروڑ ڈالر کی مشترکہ فنانسنگ ہونے پر ہی اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ روپے پر دباؤ کم ہوگا۔ پاکستان سالانہ 12 سے 15 ارب ڈالرکی پٹرولیم گروپ جس میں پٹرولیم کروڈ اور پٹرولیم مصنوعات اور دیگر شامل ہوتے ہیں، درآمد کرتا ہے اور اس مالی حجم میں ہر سال اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ہر اقسام کی درآمدات کی بھرمارکے باعث پاکستان کا تجارتی خسارہ اب برآمدات سے دگنی مالیت کی جانب بڑھ رہا ہے جس نے روپے کی قدرکو مسلسل گرائے رہنے کے عمل کوکافی تقویت دی ہے۔

کرنسی کی ویلیو اس لیے بھی کم سے کم ہوئے چلی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو جتنی تیزی سے مانتے چلے جائیں گے اس کا منفی اثر روپے پر ہی ہوگا اور غریب عوام ہی شدید متاثر ہوں گے۔ بجلی کی قیمت بڑھائی جاتی رہی ہے اب پھر بڑھانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اب جب کہ سعودی عرب کی جانب سے موخر ادائیگی پر تیل ملنا شروع ہو جاتا ہے تو اس کے معیشت پر کیا اثرات ہوں گے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

اس وقت عالمی مارکیٹ میں تقریباً ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے اورکافی اضافہ ہو بھی چکا ہے جن میں پاکستان کے لیے خوراکی اشیا زیادہ اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ یہ وہ اشیا ہیں جن کا پاکستانی صارفین زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً گندم ، کھانے کا تیل ، مختلف اقسام کی دالیں، چائے کی پتی، چینی اور دیگر خوراکی اشیا کے علاوہ ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو رواں دواں رکھنے کے لیے زیادہ مقدار میں کپاس درآمد کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ زرعی مشینریاں دیگر مختلف نوع و اقسام کی صنعتی مشینریاں، موبائل فونز وغیرہ بسیں، ٹرک، لگژری گاڑیاں اور بہت سی درآمدات جن کا متبادل پاکستان میں تیار بھی ہو رہا ہو پھر بھی درآمد کی جاتی ہیں۔ لہٰذا روپیہ ہر وقت دباؤ کا شکار رہتا ہے۔ مالی سال 2020-21 کی بات ہے جب درآمدی مالیت روایتی انداز میں تیزی سے بڑھنے کے برعکس کم رہا اور اسی سال ڈالرکی قدر کم ہوتے ہوئے 160 سے 153 تک بھی آگئی تھی۔ اس کے بعد درآمدات کی ماہانہ مالیت بھی تیزی سے بڑھتی رہی اورکرنسی کی کم قدری کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری رہا۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایک ڈالر کی قدر 180 روپے تک جا پہنچی تھی۔

آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب ڈالر کے قرض کی قسط ملنے کے بعد روپے کی قدر میں کچھ اضافے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب یہاں پر معیشت کو زک پہنچانے کے لیے کئی باتیں بین الاقوامی سطح پر شروع ہو چکی ہیں۔ اول عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان معاشی ترقی کے عمل کو جاری و ساری رکھنے کے باعث تیل کی درآمد بطور مقدار اضافہ کرتا جا رہا ہے۔

ملک میں مہنگائی کے باعث غربت بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے فی کس آمدن بڑھنے کا اعلان کیا گیا ہے ، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ دولت کی تقسیم عدم مساوات کس قدر کارگر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ایسے میں اگر روپے کی قدر میں قدرے بہتری کے آثار نمودار ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں بہت سی درآمدی اشیا کی قیمت میں قدرے کمی کو محسوس کیا جاسکتا ہے اور یہ بات اس وقت پاکستانی معیشت کے لیے ضروری ہے کہ روپے کی کم قدری میں زیادہ اضافے کو کچھ کم کیا جاسکے۔

گزشتہ تین سالوں میں روپے کی قدر 45 فی صد گرنے کے باعث ہی معیشت سخت ترین مندی کا سامنا کر رہی ہے اور روپے کے اس دباؤ کو کم کرنے کی خاطر قرض لینے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے ، کیونکہ جیسے ہی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے ہیں روپے کی بڑھتی ہوئی کم قدری کو کچھ کنٹرول کرلیا جاتا ہے لہٰذا سعودی عرب کی جانب سے موخر ادائیگی پر تیل کا ملنا معیشت کے لیے خوش آیند ثابت ہوگا۔

پاکستان کا اہم ترین معاشی مسئلہ مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری بھی ہے جس میں کمی لانے کے لیے کسی قسم کی موثر منصوبہ بندی نہیں کی جاسکی ہے۔ ان حالات میں یہ خبر خوش آیند ہے کہ اسپیشل اکنامک زون دھابیجی کی ترقی کے حوالے سے نجی شراکت دار 2KBکے ساؤتھ کنسیشن معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔

دھابیجی انڈسٹریل زون حکومت سندھ کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ کراچی شہر کے بارونق علاقے قائد آباد سے دھابیجی قصبے کے لیے باآسانی ٹرانسپورٹ دستیاب ہو جاتی ہے۔ کراچی سے نزدیک ہونے کے باعث کراچی کے بڑے بڑے کاروباری گروپس اور صنعت کاروں نے بھی اس میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت ترجیحی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ موڈ کے تحت شروع کیا جا رہا ہے۔ یہاں 5 بلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری متوقع ہے ۔

بشکریہ ایکسپریس
 

بشکریہ ایکسپرس