181

ٹاپ ٹین وزرا...حکومت تنقید کا شکار

کسی بھی حکومت کی کامیابی اور ناکامی میں حکومتی مشیران اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو نہ جانے اُن کے کس مشیر نے یہ مشورہ دیا کہ وفاقی وزرا کو اُن کی کارکردگی پر ایوارڈ اور اسناد سے نوازا جائے اور ایسا کرنے سے وزارتوں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ وزیراعظم نے مشورے پر عمل کرتے ہوئے گزشتہ دنوں ایک تقریب میں ٹاپ ٹین وزرا کو شاندار کارکردگی پر تعریفی اسناد سے نوازا اور وزیراعظم کے قریبی ساتھی مراد سعید سب پر سبقت لے گئے۔

ٹاپ ٹین وزرا کے اعلان اور من پسند وزرا کو تعریفی اسناد سے نوازنے پر حکومت پر تنقید کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور ٹاپ ٹین میں جگہ نہ پانے پر وزرا شرمندہ اور مایوس نظر آئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ کو ٹاپ ٹین فہرست میں شامل نہ کرنے پر معاونِ خصوصی ارباب شہزاد کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا اور اپنی وزارت کی کامیابی گنواتے ہوئے 45 روز کے شارٹ نوٹس پر او آئی سی کا اجلاس بلانے کو جوئے شیر لانے کے مترادف قرار دیا۔ اِسی طرح حکومتی اتحادی جماعت کے وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے کارکردگی فہرست میں اپنی وزارت کو 15ویں نمبر پر دیکھ کر وزیراعظم سے شکوہ کیا کہ اُن کی وزارت نے آئی ٹی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کیا مگر انہیں سراہا نہیں گیا۔ ایک اور حکومتی وزیر علی محمد خان تعریفی سند نہ ملنے پر یہ کہتے سنے گئے وہ ہر طرح سے حکومت اور عمران خان کا دفاع کرتے ہیں مگر اُنہیں پھر بھی 12واں کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ کابینہ کے اہم وزیر شوکت ترین جو آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کو اپنا بڑا کارنامہ قرار دیتے ہیں، نے وزارت خزانہ کو 17ویں نمبر پر دیکھ کر وزیراعظم سے شکوہ کیا کہ اگر وزیراعظم مطمئن نہیں تو کیا ہم گھر چلے جائیں؟

حکومت نے اپنے 55 وزیروں میں سے صرف 10 وزراکی کارکردگی اطمینان بخش قرار دینے سے یہ مہر ثبت کردی ہے کہ باقی 45 وزیروں اور مشیروں کی کارکردگی سے وزیراعظم مطمئن نہیں جس سے نہ صرف عوام میں اُن وزرا اور مشیروں کی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ تعریفی اسناد نہ دیئے جانے پر وہ نجی محفلوں میں شکوہ کرتے اور میڈیا سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ بات خارج از امکان ہے کہ آنے والے دنوں میںتعریفی اسناد حاصل کرنے والے ٹاپ ٹین وزرا سرکاری تقریبات میں اگلی نشستوں جبکہ وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر خزانہ شوکت ترین سمیت دیگر اہم وزرا پچھلی نشستوں پر بیٹھے نظر آئیں گے۔ اہم وزارتوں دفاع، خارجہ، خزانہ، توانائی، پیٹرولیم، اطلاعات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ٹاپ ٹین فہرست میں شامل نہ کرنے اور وزرا کو تعریفی اسناد سے نہ نوازنے پر یہ تاثر ابھرا کہ اگر وزیراعظم ان وزارتوں سے مطمئن نہیں تو پھر حکومت کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے کہ ملک درست سمت میں گامزن ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ وزارت دفاع جس کے ماتحت پاکستان کی تینوں مسلح افواج ہیں، کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تو کیا اِس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ افواجِ پاکستان کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں حالانکہ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ اِسی طرح وزارت امور کشمیر کو 21واں نمبر دے کر حکومت نے اپوزیشن کے اِس دعوے پر مہر ثبت کردی ہے کہ ’’پی ٹی آئی حکومت کی کشمیر پالیسی صرف 5 فروری کو ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ منانے تک محدود ہے تاکہ یہ دن مناکر وہ اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوجائے‘‘۔

ٹاپ ٹین وزرا کو تعریفی اسناد دیئے جانے کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملتی تاہم پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں وزراکو کارکردگی پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اگر ٹاپ ٹین وزرا کی پرفارمنس پر تعریفی اسناد کا یہ واقعہ یورپ کے کسی ملک میں پیش آتا تو وہ وزرا جن کی کارکردگی سے وزیراعظم مطمئن نہیں، اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو پیش کردیتے مگر شاید پاکستان میں ایسی کوئی روایت نہیں اور ٹاپ ٹین سے خارج وزرا اپنی پرانی تنخواہ پر فخریہ کام کرتے نظر آرہے ہیں۔ وزیراعظم اپنی توانائیاں ٹاپ ٹین وزرا جیسے غیر ضروری کاموں پر صرف کررہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک فضول ایکسرسائز تھی جو نہ کی جاتی تو بہتر ہوتا جبکہ اس کی ٹائمنگ بھی غلط تھی کیونکہ موجودہ صورتحال میں اپوزیشن جماعتیں حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے متحرک ہیں اور پی ٹی آئی کے پارلیمنٹرینز اپوزیشن جماعتوں سے رابطے میں ہیں۔ باوثوق ذرائع سے یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اپوزیشن سے رابطہ کرنے والوں میں دلبرداشتہ حکومتی وزرا بھی شامل ہیں۔ ٹاپ ٹین وزرا کو تعریفی سند دے کر حکومت کوئی فائدہ تو حاصل نہ کرسکی بلکہ حکومت اور وزیر اول کا ایوارڈ لینے والے مراد سعید ٹی وی پروگرامز میں تنقید کی زد میں ہیں اور اس بحث نے ایک نیا موڑ اختیار کرلیا ہے جس سے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے۔

بشکریہ جنگ  
 

بشکریہ جنگ نیوزکالم