332

مذہب کے نام پر!

    
    سردارِ دوجہان آقا کریم ۖ  نے خطبہ حجتہ الوداع میں جو باتیں کہیں ہیں وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کیلئے راہ نجات کا سبب ہے۔ حضور نبی اکرم ۖ نے مسلمانوں کو بہت نصیحتیں کیں جو کہ تمام انسانیت کیلئے انتہائی مفید ہیں ، لیکن ایک بات جو صرف مسلمانوں کیلئے کی وہ انتہائی قابلِ غور ہے۔ آقا کریم ۖ  نے فرمایا کہ ''  اسلام میں کوئی بھی کسی پر برتر و بالا نہیں ہے، کسی کالے کو گورے پر کسی گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں سوائے اس کے جو زیادہ پرہیزگار  اور متقی ہے'' اس قول مبارکہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اسلام محض کسی فرقے یا کسی واحد شخص یا کسی گروہ کا نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کا ہے جو سب سے زیادہ اللہ پاک کے قریب ہو۔   
    ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک  شخص اسلام کو اپنے نقطئہ نظر  سے دیکھتا ہے۔ آج کل دنیا میں مسلمان اور خاص کر اسلام کو دہشت گرد مذہب تصور کیا جاتا ہے، اس کی بنیادی وجوہ یہ ہیں کہ ہم نے ہی اسلام کو بدنام کردیا ہے۔ اسلام میں کسی شخص کیلئے ذاتی کوئی حکم نہیں آیا ہے اور اگر کوئی حکم ہے تو وہ ہم سب مسلمانوں کیلئے یکساں ہے۔پچھلے دنوں سری لنکن شہری کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟ اسلام میں ایسے بے رحمانہ قتل و غارت کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔ اس سری لنکن کا قصور کیا تھا؟ اس نے دیوار پر لگی ایک مذہبی سٹیکر پھاڑا تھا ۔ ایک سٹیکر پھاڑنے کی سزا یہ تو نہیں کہ آپ پتھر اٹھائیں ، لاٹھیاں اٹھائیں اور کسی شخص کو ایسی سفاکی سے قتل کردیں۔ وہ تو نہیں جانتا تھا کہ یہ کیا لکھا ہے۔ نہ وہ عربی پڑھ سکتا تھا اور نہ ہی وہ یہ جانتا تھا کہ یہ اسلامی سٹیکر ہے۔ چلو مان لیتے ہیں کہ وہ جانتا تھا اور جان بوجھ کر ایسا کیا اور اسے ایک منیجر کی حیثیت سے کرنا بھی چاہیئے  کیوں کہ  پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں جا بجا اسلامی سٹیکرز اور اللہ کے نام یا قرآنی آیات جا بجا نہیں لگانی چاہیئے، دوسری بات یہ کہ وہ  کمپنی کا منیجر تھا اور بطور ایک ذمہ دار منیجر اس نے اپنی ذمہ داری نبھائی اور کمپنی سے ایک غیر ضروری کاغذ کو پھاڑ دیا اور ہم یہاں پر اللہ کے وکیل بن کر اسے پر اسرار موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ بھی تو انسان تھا ، اس کا بھی خاندان تھا، وہ بھی پردیس میں تھا  اور سب سے بڑی بات یہ کہ اسے بھی اللہ نے ہی پیدا کیا تھا وہ بھی اللہ ہی کا بندہ تھا اور ہم اللہ کے مسلمان بندوں نے اس اللہ کے بندے کو مار دیا، جواب تو دینا پڑے گا ہم جواب دہ اور مجرم تو ہیں اور مجرم کا حساب کتاب تو ہوگا۔ اسی طرح دو دن پہلے ایک ذہنی بیمار کو اس لئے قتل کر دیا گیا کہ اس نے قرآن شریف کے اوراق جلا دیے تھے۔ ہم اتنے نا سمجھ ہیں کہ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اگر قرآن شریف یا دیگر مقدس کتابوں کے اوراق بوسیدہ ہوجائیں تو اسے جلا ہی دینا چاہیئے  نہ کہ اسے کوڑے دان میں پھینکنا چاہئے۔ ہم مذہبی نہیں بلکہ جنونی ہیں اور جنونیت ہمیشہ معاشرے میں فساد پھیلاتا ہے امن نہیں۔ میرے نزدیک اس جنونیت کے ذمہ دار وہ مذہبی ٹھیکیدار ہیں جو مذہب کے نام پر سیاست اور فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس بھولی بھالی اور نا سمجھ عوام کو ان معاشرے کے ناسوروں نے جیسے چاہا اسی طرح کھلایا لیکن ہم ہی سوچ سے عاری عوام کو بھی سوچنا چاہئے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح لیکن ہم اندھی تقلید کرنے والے قوم ہے ہمارا کچھ نہیں ہونے والا ہے۔
    پاکستان کی ریاست اور جمہوریت کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ ملک کے اندر بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور اس کے تناظر میں پیدا ہونے والی دہشت گردی سے ہے۔ مذہب کے نام پر پیدا ہونے والی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی کہانی کافی خوف ناک ہے۔پاکستان میں پہلی افغان جنگ کے تناظر میں سیاسی عمل میں مذہب کی سیاست کا بہت عمل دخل رہا۔پاکستان چوں کہ اسلام کے نام پر بنا اور یہ ایک لولی پاپ کی طرح عوام کو دیا گیا۔بد قسمتی سے یہاں اسلام تو نافذ نہیں کیا جاسکا ، البتہ ہماری پس پردہ قوتوں اور بالا دست طبقوں نے ابتدا ہی سے سیاست میں مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔اس طبقے کا خیال تھا کہ مذہب وہ واحد بنیاد ہے جس کے تحت وہ لوگوں کے جذبات کو ابھار کر انھیں اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں اور اپنے سیاسی مفادات کو بھی پورا کر سکتے ہیں۔
    پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اگر چہ پہلے بھی تھی لیکن اس میں اصل شدت جنرل ضیا الحق کے دور میں آئی۔پنجاب میں بالخصوص مذہب کے نام پر فرقہ وارانہ جماعتوں کی نہ صرف سرکاری سرپرستی کی گئی بلکہ ریاستی اداروں کی مدد سے ان جماعتوں کے اندر نئے گروپس تشکیل دئے گئے۔آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں 1990 سے 1999ء تک کے دور میں پورے پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات عروج پر تھے۔سرکاری اداروں کی مدد سے ان تنظیموں نے اپنے اپنے مسلح لشکر تشکیل دئے اور اپنے مخالف فرقوں کے بارے میں شر انگیز تحریری مواد شائع کئے اور ایک دوسرے کے فرقے اور افراد کو کافر اور واجب القتل قرار دیا۔سرکاری ایجنسیوں نے ان افراد کی نہ صرف سرپرستی کی بلکہ ان کو یہاں کام کرنے کا ایسا موقع فراہم کیا کہ وہ جب چاہیں اور جیسے چاہیں اپنا کام کر سکتے ہیں۔اس دہشت گردی کی تنظیموں کی بنیاد رکھنے سہرا جنرل ضیا الحق کے سر جاتا ہے انھوں نے تو ایک جلسے میں جب وہ الیکشن لڑنے کیلئے کھڑے ہوگئے تو صاف الفاظ میں بتا دیا کہ اگر آپ مسلمان ہیں اور اس ملک میں اسلام لانا چاہتے ہیں  اور جو خود کو مسلمان سمجھتا ہے تو وہ مجھے ہی ووٹ دے گا ہ صورت دیگر مجھے ووٹ نہ دینے والا کافر ہوگا۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے مضبوط ہوگیا اور آج بھی ہم ان غلطیوں کی سزا خوب بھگت رہے ہیں اور یہ تنظیمیں روز بہ روز مضبوط ہوتی جارہی ہیں۔
ایک بڑی بد قسمتی یہ رہی کہ ہمارے ہاں جن لوگوں نے مذہب کے نام پر تشدد کا راستہ اختیار کیا ان کی مکمل طور پر سرکوبی کے بجائے سیاسی جماعتیں ان کے اقدامات کا جواز پیش کرتی رہی ہیںجس نے ان قوروں کو مضبوط ہونے میں تقویت دی۔ مثلاََ طالبان کی طرزِ فکر اور ان کے اقدامات کو بہت سے لوگوں نے یہاں جواز بنا کر پیش کرنا اور یہ کہنا کہ امریکہ غلط کررہا ہے تو ان لوگوں کو مجبوراََ یہ سب کچھ کرنا پڑ رہا ہے، ٹھیک حکمر عملی نہیں ہے۔ اس تاثر کی عجہ سے بعض اوقات مذہبی جماعتوں کے بارے میں یہ تاثر بھی مضبوط ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی اس طرز کے اسلام کی ترجمانی کرتے ہیں اور یہ سوچ لوگوں میں کئی نئے خطرات کو جنم دیتی ہے۔ 
 

بشکریہ اردو کالمز