411

زمانہ شناسی کے راستے خود شناسی کا مسافر خدا شناسی کی منزل چاہتا ہے

خدا کی تلاش میں نکلے قلمی مسافر کی کارگزاریاں 

کائنات کی سب سے بڑی سچائی اللہ تعالیٰ کی ذات مبارکہ ہے اور میں اللہ کواندازے گمان خیال کی طرح مصنوعی اور جھوٹے خداؤں کو ماننے والوں کی طرح نہیں ماننا چاہتا ہوں مطلب خدا مسلمان کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو میں اس قرب کو محسوس کرنا چاہتا ہوں بات کرنا اور سننا چاہتا تھا جیسے روبروشک و ہم و سوسے سے پاک ہوتی ہے جیسے قدرت کے کچھ نظارے سامنے اور ساتھ رہتے ہیں ایسے ہی میں قدرت کے بانی کو بھی ساتھ پانا چاہتا ہوں اور یہ میرا حق بھی بنتا ہے جیسے میرا خدا اور دین کوئی دھوکہ نہیں سارے کا سارا کھلا حق سچ ہے اللہ اوراللہ کے پیغمبروں نے جس حقیقت کی نشاندہی کی ہے میں ان تک پہنچنا چاہتا ہوں اس کی دو وجہ ہیں ایک میں اپنے اندر پیدا ہونے والی خدا اور کائنات کی محسوسات کو ایمان کی صورت رکھنا چاہتا تھا دوسرا جماعت یا فرقہ پرست لوگوں کے عالموں کی باتوں کو خدا اور دین اسلام کی تصدیق میں چھان کرایمان بنانا چاہتا تھا تاکہ حق کو سمیٹتے ہوئے علما سو کی مصنوعی دینی تخلیق کے ابہام کی گمراہی سے بچا رہوں میں خدا کو ایسے نہیں ماننا چاہتا جیسے جھوٹے مذہب کے لوگ اپنے ہی ہاتھوں کے تراشے ہوئے خداؤں کو مانتے ہیں یا قدرت کی تخلیق سورج چاند آگ ہوا پانی کو ہی خدا سمجھ کر پوجا کرنے والے مانتے ہیں وہ لوگ جواب سے محروم رہتے ہیں اور فطرت کی طرف سے رونما ہونے والے معاملات کو اپنے جھوٹے خداؤں کی طرف سے منسوب کرکے دھوکے پر سچ کی گمراہی کا غلاف چڑھا کر جی رہے ہوتے ہیں میں ایسے اسلام اور خدا کو نہیں پانا چاہتا تھا میں حقیقتوں سچائیوں کے ساتھ مذہنی حیات کو گزارنا اپنے مسلمان ہونے کامنفرد اعزاز تصور کرتا ہوں مومن کی فضیلت کے زمرے میں آنے والے تمام حقائق غیر مسلموں کو نظر آئیں یا نہ آئیں خود مومن کو نظر آتے ہوئے محسوس ہونے چاہئیں یہی ایمان میں ہونے کی دلیل ہے میں اسی کیفیت کی کھوج میں مختلف منظروں سے گزرا ہوں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے اور اکثر پیروں مزاروں اور عقیدت مندوں کے مطابق عارفانہ کلام قوالی جو کئی سازوں کے اشتراک پر مشتمل ہوتی ہے اس کے اہتمام کو رُوحانی سکون سے جوڑا جاتا ہے اس میں دو پہلو ہوتے ہیں ایک آواز کا جس سے میں بھی متفق ہوں مگر کلام فقط مقدس جذبات کے ترجمان الفاظوں پر مبنی ہو دوسرا جس سے میں متفق نہیں ہوں وہ ہے میوزک یعنی موسیقی کواسلام میں حرام بھی کہا گیا ہے۔سب سے پہلے دلکش اور رُوح پر اثر کرنے والے سُریلی آوازکے مالک حضرت داؤد ؑ ہیں جو اللہ کا کلام پڑھتے تو پہاڑ وں پر بھی اثر ہوتا اور وہ اپنی جوابی آواز بھی اس میں شامل کرتے چرند پرند ہر مخلوق متاثر ہوتی اس انمول ومنفرد خدائی عطا میں کہیں موسیقی کے آلات شامل نہیں تھے تاثیر کی بنیاد خدا کی طرف پیغمبر انسانی کی وابستگی و موجودگی حمد و ثنا کا کھلا ثبوت بھی رہی اور طریقہ بھی۔اب جو موسیقی کے آلات کے ساتھ مذہبی تناظر میں رُوحانی سکون کی محفلیں سجاتے ہیں ان پر ایک روشنی ڈالتے ہیں ایک میلے پر ایک قوال آیا کرتا تھا جس کے متعلق کہا جاتا تھاکہ یہ پیر جی کا چہیتا قوال ہے وہ ظالم کئی کئی منٹ تک ایک سانس سے مُرکیاں لگاتاایک تو وہ پہلے ہی نقش و نگار کے اعتبا ر سے بھدا تھا اور گٹکری لیتے وقت جب اس کے گلے کی رگیں پھول جاتیں تو وہ اور بھی بھیانک نظر آتا جیسے کوئی چیتے کا بچہ گردن میں بندھی رسی کھینچ کر توڑڈالنا چاہتا ہو۔لیکن پیر جی صاحب کے مُرید تقلیدی کیفیف کے وہ پینترے دکھاتے کہ رہے نام خدا کا۔کوئی کہرواناچتا کوئی لوٹن کبوتر کی طرح نظر آتا مجھ پر اس کیفیت و رقص کا کوئی اثر نہ ہوتا بلکہ پہروں سوچا کرتا کہ بھلے چنگے ڈڑھیل لوگوں کو کیا ہو جاتا ہے کہ بزرگی و سنجیدگی سے یک لخت دست بردار ہو کر اچھل کود پر اتر آتے ہیں اس حقیقت کی کرید نے رفتہ رفتہ مجھے بزرگان دین کی زندگیوں کے مطالعے کی طرف رجوع کر دیا۔میں صوفیا و علما کے سوانح حیات کی طرف راغب ہو گیا دوران مطالعہ میں اپنی تشنگی وبے اطمینانی کا کسی سے زکر نہ کرتا کیونکہ میں عقلی طور پر سکون چاہتا تھا جس کی مجھ میں ابھی اصلاحیت ناپید تھی مشاہدہ کے بغیر خالی پھیکے عقیدوں کو تسلیم کرکے کسی بات کو مشعل زندگی قرار دے لینا میرے بس کی بات نہ تھی اوردل میں خو دبخود ایسے خیالات جنم لیتے رہتے کہ آخر یہ مریدین سچے اولیاء صوفیا کا عبادت و ازکار والا سیدھا راستہ تلاش کیوں نہیں کر تے اس گانے بجانے میں اگر خدا کا راستہ ہوتا تو تمام قوال اور گوئیے صاحب باطن ہوتے۔اگر راگ راگنی کا تاثر خدا سے ملاتا ہے تو مندروں کی آرتی سے بھی ایک کیفیت طاری ہوتی ہے چرچ میں بھی متاثر کن موسیقی پیش کی جاتی ہے وہاں حاظرین کو حال وقال کیوں نہیں آتے۔کبھی گمان ہونے لگتا کہ کہیں یہ کوئی شیطانی فریب تو نہیں جس پر لوگوں نے پاکیزگی کا جھول چڑھا رکھا ہو یا کہیں بعض لوگ واقعی مقدس ہوتے ہوں اورا کثر جعلی بہروپئے!غرض کہ اسی قسم کی رووقدع پہروں میری تنہائیوں میں ہنگامہ آرا رہتیں لیکن کسی خاص نتیجے پر نہ پہنچاسینکڑوں شکوک اپنی اپنی کھوریوں سے گردنیں اُٹھا اُٹھا کر میرے خیالات کا پیچھا کرتے۔میں نے اپنی خداشناسی کا رُخ علم پڑھنے پڑھانے اور بیان کرنے والوں کی طرف موڑا لیا اور تلاش کرتا کہیں مجھے کوئی ایسا رابطہ مل جائے یا نظر کے پردے ہٹ جائیں تاکہ میں علما و مولوی مفتی پیرحضرات کے بیان کردہ مناظر کو سننے کے ساتھ دیکھنے سے منسلک ہو جاؤں خدا جانتا ہے کہ میں خدا کو سب سے زیادہ جاننا چاہتا ہوں اور یہ چاہت ہی انسانی تخلیق میں خدائی مقصدکی حقیقت ہے اگر ہم زمانہ شناسی کے راستے خود شناسی کے سفر پر نکلیں تو خدا شناسی کے پہلو نکلتے ہیں مومن کی شان کعبہ شریف سے بھی افضل و مقدس قرار دی گی ہے پھر کیا وجہ بنی کہ اس مومن کو خدائی عکس نہ دیکھا پانے والے فرقوں جماعتوں نے کتابی اور تخلیقی باتوں کے دلفریب قصے سنانے شروع کر دئیے بنا دیکھے ایمان لانا بیان کرکے اتنا اندھا کر دیا کہ جو بیان کر رہا ہے اس کاحال دیکھائی دے مگر جیسے بیان کر رہا ہے وہ نظر نہیں آ رہا۔حضرت موسٰی ؑ خدا کو دیکھنے کی چھوٹی سی تجلی بھی برداشت نہ کر پائے اور فرشتوں کو اللہ نے براہ راست اپنے حکم سننے کی طاقت بخش دی پھر انسانی وجود میں آئے پیغمبروں کے سچے عقیدت مندوں سے خدا نے کیوں پردہ کر رکھا ہوا ہے۔ہر بڑی ہستی چاہے وہ مذہبی ہو یا دنیاوی ہو اپنے نمائندوں اور نائب افراد کے زریعے عام انسان کے ملنے کا طریقہ کار ترتیب اصول و ضوابط وقت لاگو رکھتی ہے خدا نے بھی ایساہی طے کیا ہوا ہے تو بھری دنیا میں ہزاروں اسلامی نمائندے خود کو اسلام اور خدا کا ترجمان بنا کر شہرت عیش و عشرت کی بلندیوں پر بیٹھے ماضی کی مدعا سرائی اور دور حاضر پر تنقید سے لبریز تبلیغ تو کرتے ہیں مگر اسلام قبول کرنے والے یا پیدائشی مسلمان کو حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں یا اللہ کی محسوس ہوتی ذات کے سامنے لے جا سکتے ہیں؟ اگر یہاں تک رسائی نہیں ہے تو کم از کم اتنی گارنٹی تو دیں کہ جو دعا کرتے ہیں فوری قبول ہو جاتی ہے مطلب دنیاوی حکومتوں محفلوں مجلسوں حلقوں میں مقبول شخصیات اللہ کے ہاں بھی اسی اوقات کی مالک ہوں دور حاضراگر کوئی ایسے فقیر درویش عالم مفتی مولوی کو جانتا ہے تو میری راہنمائی کرئے مجھے اللہ کی بڑی اشد ضرورت ہے۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اللہ اور اسلام کے نام پر مسلمانوں کا مال مسجد مدرسے اور ذاتی تجوریوں میں سجانے والوں کو انسانیت پر خرچ کرنے سے کس نے روکا ہوا ہے؟

بشکریہ اردو کالمز