642

پچاس دن

اسٹبلشمنٹ کے خود ساختہ ترجمان شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پچاس دنوں میں اپوزیشن کا قلع قمع ہو جائے گا۔وہ پچاس دنوں کی وضاحت کیوں نہیں کرتے کہ ان سے مراد کون سے دن ہیں تاوقتیکہ ان کا مطلب ”مارچ کے آخری ایام“ ہوں۔ چونکہ پی ڈی ایم کا اسلام آباد تک ”لانگ مارچ” 23 مارچ کو طے شدہ ہے۔ گویا وہ کہنا چاہتے ہیں کہ لانگ مارچ عمران خان کو ہٹانے میں ناکام رہ کر ہوا میں بکھر جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیخ رشید نے اپوزیشن کی متوقع ناکامی کی وجہ بھی بتائی ہے۔ ”اسٹبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ہے۔“وہ اپنے حامیوں کو یقین دلاتے ہیں، لیکن اسی سانس میں اس کے غیر جانب دار ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ تو یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ بیک وقت غیر جانبدار اور حکومت کے ساتھ کیسے رہ سکتی ہے؟
یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جسے حزب اختلاف سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر اسٹبلشمنٹ غیر جانبدار ہے، یعنی آنے والے دنوں میں جب حزب اختلاف قومی اسمبلی میں اپنی طاقت دکھائے گی تو اسٹبلشمنٹ حکومت کا ہاتھ نہیں تھامے گی اورپھر حکومت کے اتحادی حزب اختلاف کی صفوں میں آ جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہو جائے گا، تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹ جائے گا اور نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ یہاں دلیل یہ ہے کہ چونکہ اسٹبلشمنٹ نے پہلے تحریک انصاف کی حکومت کو سہارا دینے کے لیے اتحادیوں کو اس کے گرد جمع کیا تھا، اس لیے اب اس کی غیرجانبداری اُنھیں حزب اختلاف کے ساتھ تازہ الائنس قائم کرنے کی آزادی دے گی۔ اس طرح وہ اگلے انتخابات میں اپنا کوئی چانس دیکھیں گے کیوں کہ ان میں تحریک انصاف کی تباہی یقینی دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید نے انھیں یقین دہانی کرانا ضروی سمجھا کہ اسٹبلشمنٹ اب بھی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور اسے گرنے سے بچائے گی۔
دریں اثنا، حزب اختلاف اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اسٹبلشمنٹ بالآخر سیاسی کھیل سے دستبردار ہوچکی۔ اب ایک انتہائی غیر مقبول حکومت کو سہارا نہیں دے گی جس کی حمایت کرنے پر اس کا دامن داغدار ہوا۔ نتیجتاً، پارلیمنٹ سے استعفوں یا احتجاجی ریلیوں کی باتوں نے عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے تعداد کو اکٹھا کرنے کے لیے جلسوں کو تیز کر دیا ہے۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کی تعداد 182 ہے جبکہ اپوزیشن کی تعداد 162 ہے۔ 20 کا اہم فرق حکومت کے اتحادیوں پر مشتمل ہے۔ اگر آدھے سے زیادہ ٹوٹ جائے تو حکومت گر جائے گی۔ اپوزیشن کو یہ کرنا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں انہیں یقینی کامیابی کے لیے نشستیں پیش کریں اور وہ دوڑ کر آئیں گے۔ لیکن کیا یہ واقعی اتنا ہی آسان ہے؟
گجرات کے چودھریوں کے پاس قومی اسمبلی کی پانچ سیٹیں ہیں۔ اس وقت پنجاب کی سپیکر شپ اور دو وفاقی وزارتیں ان کے ہاتھ میں ہیں۔ لہٰذا وہ تحریک انصاف کو چھوڑنے پر پنجاب میں اس سے کہیں زیادہ کا مطالبہ کریں گے۔ لیکن یہاں مسئلہ ہے پاکستان مسلم لیگ ن کو اسلام آباد تک پہنچنے کے لیے پنجاب میں کلین سویپ کرنے کی ضرورت ہوگی اور آخری چیز جو جرم میں شامل قابل اعتبار شراکت داروں کو دینا چاہے گی وہ بہت زیادہ نشستیں یا اقتدار میں اہم حصہ ہوگا۔ پھر ایم کیو ایم کے دو اراکین اسمبلی ہیں۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اس کے بہت سے مسائل ہیں۔ لیکن پاکستان مسلم لیگ ن ”عمران خان ہٹاؤ آپریشن“ میں اپنے اہم شراکت کار کے خلاف اُن کی مدد نہیں کرسکتی۔ یہی صورت حال خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں ہے۔ اس وقت افق پر واحد جنگجو جہانگیر ترین ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ساتھ بیس کے قریب اراکین موجود ہیں۔ لیکن وہ سب سے زیادہ بولی لگانے والے کا ساتھ دیں گے۔ لیکن وہ بھی ایم کیو ایم اور چوہدریوں کی طرح اسٹبلشمنٹ کی طرف سے اشارے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ تو کیا اسٹبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ہے یا غیر جانبدار ہے (یعنی اتحادی اپنے مفاد میں آزادانہ فیصلے کر سکتے ہیں)؟
یہ کسی بھی فریق کے لیے چند زیادہ یا کم ووٹوں کا سوال نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر مکمل طور پر جانبدار ہیں جنہوں نے ماضی میں ووٹوں کی گنتی میں ہاتھ دکھانے سے گریز نہیں کیا تھا۔ اور چونکہ ان کے فیصلوں کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اس سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپوزیشن کو آسانی سے نہیں جیتنے دیں گے۔ اس لیے جیت کا مارجن اتنا اہم ہونا چاہیے کہ اس میں گڑبڑ نہ کی جاسکے۔ مزید یہ کہ عمران خان کی مایوسی کوہلکا نہیں لینا چاہیے۔ وہ پنجاب اور سندھ سے اپوزیشن کے اراکین قومی اسمبلی کو حراست میں لینے یا اغوا کرانے کے لیے ایف آئی اے اور نیب کو استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
اس دوران کچھ اور اہم معاملات ہیں جن کو طے کرنا ہے یہاں تک کہ مطلوبہ تعداد پوری ہوجائے اور تحریک انصاف کی حکومت جلد ہی ختم ہو جائے۔ اپوزیشن کی عبوری حکومت مختصر ہوگی یا طویل؟ نئے انتخابات کا حکم کب دیا جائے گا؟ وزیراعظم اور صدر کون ہوگا؟ عبوری حکومت کے بعد نگران حکومت کیسی ہوگی؟ اگر صوبائی حکومتیں اسلام آباد میں تحلیل کے منصوبے پر قائم نہ رہیں تو ان کا کیا بنے گا؟ کیا ہم بیک وقت صوبائی انتخابات کے بغیر عام انتخابات کرا سکتے ہیں؟
شیخ رشید کا مارچ کے آخر کا منظرنامہ ایک اور وجہ سے بھی خطرناک ہے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ اپریل آتا ہے اور عمران خان جنرل فیض حمید کو اسٹبلشمنٹ کے اگلے سربراہ بنا سکتے ہیں۔ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے عمران خان کو عروج دلایا اور اب تک ان کا تحفظ کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حزب اختلاف بوریا بستر اٹھا کر گھر جائے گی اور عمران خان کو اگلے سال مزید پانچ سال کے ”انتخاب“ کی یقین دہانی مل جائے گی۔ متبادل کے طور پر اگر اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کو تقرریوں، ترقیوں، تبادلوں یا توسیع کے حوالے سے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کا حکومت کے ساتھ تصادم ہوسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس صورت میں حزب اختلاف کا بھی فائدہ ہو۔ اس لیے اگر حزب اختلاف نے کوئی قدم اٹھانا ہے تواس کا موقع اب ہے۔ لیکن پچاس دنوں کے بعد ایسا نہیں ہوپائے گا۔
شبہاز شریف اور آصف علی زرداری کی ملاقات محض رسمی دعاسلام تک محدود نہیں تھی۔ ایم کیو ایم کے وفد نے بھی شہباز شریف کے ساتھ لنچ کیا ہے۔ چوہدریوں نے بھی زرداری صاحب کے ساتھ ہاتھ ملائے ہیں۔ اب شہباز شریف کو جہانگیر ترین اور چوہدریوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنی ہیں۔اس دوران عمران خان نے بھی عوامی محاذ سے ان پر تنقید کی توپوں کے دہانے وا کیے ہوئے ہیں۔
تناؤ واضح طور پر محسوس ہورہا ہے۔ یہ ہر کھلاڑی کے چہرے پر ہویدا ہے۔ لیکن ایک مسلہئ ہے۔ کسی بھی کتاب میں ”اسٹبلشمنٹ کی غیر جانبداری“ کا باب نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال میں جب کہ آخری اننگز کھیلی جارہی ہے، ”ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو“ کا لمحہ آنے والا ہے۔ لیکن پہلا وار کون کرے گا؟

بشکریہ ہم سب