412

پشاور پولیس کا جنات سے پالا

خاتون کے سر میں کیل ٹھونکنے کا واقعہ بظاہر کسی انسان کے سر میں کیل ٹھونکنے کا واقعہ ہی ہے لیکن یہ دراصل ہماری اجتماعی عقل پر کیل ٹھونکنے کا وقوعہ ہے۔ اس واقعے کی پرتیں اب ایک ایک کرکے کھلنے لگی ہیں۔

پولیس نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچنے کے بعد متاثرہ خاتون اور اس کے شوہر کا پتہ لگا لیا ہے۔ ابتدائی تفتیش میں تو صرف اتنا پتہ لگایا گیا تھا کہ خاتون کو رکشے میں ہسپتال لایا گیا۔ پولیس کے مطابق مریضہ کو چار فروری کو شام پانچ بجے ہسپتال میں لایا گیا۔

خاتون کے ساتھ دو مردوں اور دو خواتین کو فوٹیجز میں آتے دیکھا گیا۔ ہسپتال کاؤنٹر سے پانچ بجکر 14منٹ پر ایک نوجوان  نے رسید حاصل کی، خاتون دو گھنٹے سے زائد ہسپتال میں زیر علاج رہی۔ ابتدائی انکوائری رپورٹ سی سی ٹی وی کیمروں کےشواہد کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔

پشاور پولیس نے کئی کیمروں کی فوٹیج حاصل کی، خاتون مریضہ کی شناخت کے لئے ہسپتال کے تمام 365 کیمروں کی فوٹیج چیک کی گئی۔ پولیس کے مطابق واقعہ کی انکوائری مختلف پہلووں سے کی جاری ہے۔ واقعہ میڈیا کے ذریعے سامنے آنے کے دو دن بعد تک بھی صورتحال یہ رہی کہ پولیس اس معاملے کا فوری سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکی نا ہی کسی جعلی پیر وغیرہ کا پتہ لگایا جاسکا، ناہی یہ معلوم کیا جاسکا کہ خاتون کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی؟ لیکن گزشتہ روز پولیس نے اس کیس کی بہت ساری گھتیاں سلجھادی ہیں۔ لیکن اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ خاتون کے پہلے والے تین چار متضاد بیانات سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید نے گزشتہ روز خاتون کے شوہر کو میڈیا کے سامنے پیش کیا۔

اس زبردست شخص نے مزید زبردست باتیں بتاکر ایک بار پھر سب کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ یہ زبردست آدمی بتا رہا تھا کہ جس خاتون کے سر میں کیل ٹھونکی گئی ہے اس خاتون سے اس کی دوسری شادی ہے اور بچوں کی تعداد گیارہ ہے۔ دوسری بیوی یعنی متاثرہ خاتون سے اس کے تین بچے ہیں جن میں دو بیٹے ہیں اور ایک بیٹی ہے۔ یعنی یہ بات تو یہیں کھل گئی کہ معاملہ اولاد نرینہ کے حصول کے لئے کسی جعلی پیر وغیرہ کے کہنے پر کیل ٹھونکنے کا ہے ہی نہیں۔

یہ زبردست آدمی دعویٰ کررہا ہے کہ اس کی بیوی نفسیاتی مریضہ ہے اور متعدد بار اس کو ڈاکٹر کے پاس بھی لے کر گیا ہے، وہ بتا رہا تھا کہ مسلہ جنات کا ہے اور اس سے قبل بھی خاتون کو تیسری منزل سے جنات نے پھینکا تھا۔ ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید نے بتایا کہ خاتون کے ساتھ ساتھ اس کے شوہر کو بھی نفسیاتی تجزئیے کے لئے طبی ماہرین کے پاس بھیجا گیا ہے کیونکہ خاتون اور اس کے شوہر کی ذہنی صحت کا تجزیہ بھی ضروری ہے تاکہ مکمل تفتیش کرکے یہ معلوم کیا جاسکے کہ خاتون نے خودکشی جیسا کوئی قدم اٹھایا؟ اس پر کسی نے تشدد کیا؟ واقعی کسی جعلی پیر اور عامل وغیرہ کا معاملہ ہے یا واقعی خاتون کی ذہنی حالت درست نہیں یا پھر خود یہ بندہ دماغی طور پر مکمل فٹ نہیں ہے؟


اس معاملے کو ضعیف الاعتقادی کہا جائے یا دین سے دوری؟ اس نکتے پر کافی لمبی چوڑی بحث کی جاسکتی ہے۔ جب ایل آر ایچ میں ایک ایسی زخمی خاتون کو لایا گیا جس کے سر میں کیل ٹھونکی گئی تھی تو ہسپتال کے عملے میں تھرتھلی مچ گئی تھی، میڈیا نمائندگان کو پہلے تو یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ پشاور میں بھی ہوسکتا ہے. میڈیا کے ذریعے ایک ہنگامہ سا بھرپا ہوا اور پتہ چلا کہ واقعی جہالت کا یہ واقعہ پشاور میں ہوا ہے تو سننے والا ہر بندہ حیرت زدہ رہ گیا۔ حیرت میں مبتلا ہونے والوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو خود جعلی پیروں کے پاس جاتے ہیں یا عملیات وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کیسے کوئی پیر یا عامل کسی کو سر میں کیل ٹھونکنے کا کہہ سکتا ہے یا خود یہ گھناونا کام کرسکتا ہے؟

متاثرہ خاتون کے متضاد بیانات اور پھر ہسپتال سے روپوشی نے ایسے سوالات کو جنم لیا جس کے جوابات کی تلاش سے پہلے مبینہ جعلی پیر یا عامل یا پھر خاتون کے شوہر کی تلاش شروع کردی گئی اور پھر پولیس اس پراسرار کہانی کے کرداروں تک پہنچ بھی گئی۔ معمہ ابھی تک برقرار ہے اور وہ یہ کہ یہ کیل کس نے ٹھونکی؟ خاتون نے خود ٹھونکی، اس کے شوہر نے ٹھونکی یا پھر جاہلیت کا یہ مظاہرہ واقعی کسی جعلی پیر یا عامل نے کیا؟ اب اگر متاثرہ خاتون کے شوہر نے پولیس کے سامنے اس کیس کا سارا ملبہ جنات پر ڈال دیا ہے تو یہ اب پشاور پولیس کے لئے بڑا امتحان ہے کہ جنات کے خلاف تفتیش کیسے کی جائے؟ جنات کو پکڑا کیسے جائے اور اگر پکڑا جائے تو جسمانی ریمانڈ کا مرحلہ کیسے طے ہوگا؟ سزا کس قانون کے تحت دی جائے گی اور ملوث جنات کو جیل میں اور کس جیل میں ڈالا جائے گا؟ ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار کیسز سامنے آتے ہیں جب لوگ جعلی پیروں اور عاملوں کے ہاتھوں لٹتے ہیں۔

ذہنی امراض کی کئی کیفیتیں جنات کے اوپر ڈال دی جاتی ہیں۔ جدید میڈیکل سائنسز میں ایسی ذہنی بیماریوں کا علاج موجود ہے اور ایل آر ایچ کے ترجمان محمد عاصم تو بتارہے تھے کہ جب یہ جعلی پیر یا عامل خود بیمار پڑتے ہیں تو اپنا علاج کرانے کے لئے ان کو ڈاکٹرز یا کسی ہسپتال وغیرہ سے ہی رجوع کرنا پڑتا ہے۔ جنات کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ جنات کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن بدقسمتی سے اس حقیقت کو ایکسپلائٹ کرکے سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے کا رجحان بڑھ رہا ہے خصوصاً دور دراز پسماندہ علاقوں میں لگتا ہے کہ لوگ آج بھی پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں۔ توہم پرستی سے ہمارا پڑھا لکھا باشعور طبقہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ یہ بہت ہی وسیع موضوع ہے جس پر ایک کالم میں مکمل بات نہ ہوپائے گی۔

آج کے لئے اتنا ہی کہ پشاور پولیس ایک بڑے امتحان سے دوچار ہے کہ کیسے اب ایک ایسے کیس کی تہہ تک پہنچا جائے جس میں بار بار جنات کا ذکر سننے کو مل رہا ہے؟ متاثرہ خاتون کا شوہر اگر ایک جانب جنات کے ہاتھوں اپنی دوسری بیوی کو تنگ کئے جانے سے پریشان ہے تو اس بات پر بھی حیران ہے کہ اگر ہسپتال ریکارڈ میں صرف خاتون کا نام اور پتہ کے خانے میں صرف پشاور لکھا گیا تھا تو پولیس نے اس کو ٹریس کیسے کرلیا؟ یہ سوال پشاور پولیس کے پیشہ ورانہ اپروچ کی نشاندہی کرتا ہے لیکن اس کیس میں پولیس اور ہسپتال انتظامیہ کی غفلت بھی سامنے آئی ہے کہ کیسے ایک کریمنل کیس آیا،

پولیس کے علم میں لائے بغیر کیسے خاتون کی ہسپتال سے سرجری کرائی گئی اور کئی گھنٹے بعد اس کو جانے بھی دیا گیا؟ اس کیس سے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے یقیناً ہسپتال کے طبی عملے، پولیس اور میڈیا نے بہت کچھ سیکھا ہوگا اور عام لوگوں کو یہ بھی بتایا ہوگا کہ آج کے جدید دور میں توہم پرستی کے بجائے اگر اپنے دین کا درست انداز میں مطالعہ کیا جائے اور اپنے تمام مسائل کا حل قرآن و سنت میں ڈھونڈا جائے تو ہم اپنے بہت سے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔

بشکریہ اردو کالمز