333

مسئلہ فلسطین کی تاریخ اور حل حقائق کی روشنی میں!

حقائق کیا ہیں ؟دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کے سپرد کر گیا تھا ، اقوام متحدہ نے 1947میں فلسطین کو یوں تقسیم کیا کہ فلسطین کے ساتھ اسرائیل کا قیام بھی عمل میں آ گیا مگر یہ تقسیم ایسی تھی کہ کہیں فلسطینی علاقہ تھا تو کہیں اسرائیلی اور اِن علاقوں کے ٹکڑے آپس میں گڈ مڈ تھے ۔تاہم دونوں ریاستیں رقبے میں تقریباً برابر تھیں ۔ سن 48ءمیں عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ جنگ چھیڑ دی ، اسرائیل جنگ جیت گیا اور نتیجے میں اُس نے مزید فلسطین کے مزید ایک تہائی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں مغربی پٹی اور یروشلم کا کچھ علاقہ اردن کے پاس جبکہ غزہ کا علاقہ مصر کے قبضے میں چلا گیا ۔ فلسطینی بیٹھے بٹھائے گھر سے بے گھر ہو گئے ۔67ءمیں پھر عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ اِس مرتبہ اسرائیل نے غزہ ، مغربی پٹی ، گولان کی پہاڑیاں اور جزیرہ نما سنائی پر قبضہ کرکے تمام عرب ممالک کے کس بل نکال دیئے ۔گویا 47ءمیں جن دو ریاستوں کا رقبہ برابر تھا، 67ءمیں اُس میں سے ایک ریاست کا وجود ہی ختم ہو گیا جبکہ دوسری ریاست ،اسرائیل، کا رقبہ قبضے کے بعد دگنے سے بھی بڑھ گیا ۔اقوام متحدہ پھر بیچ میں کودی اور ایک قرار داد میں یہ ’فیصلہ ‘دیا کہ اسرائیل تمام مقبوضہ علاقوں سے باہر نکل جائے جس پر اسرائیل نے عمل نہیں کیا۔آج بھی اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ بین الاقوامی قانون کی رو سے غیر قانونی ہے۔آدھی دنیا کی نظر میں حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے ، مگر روس ، چین اور ناروے اسے دہشت گرد نہیں کہتے۔اسرائیل کا یہ دعوی ٰ کہ اُس کی کاروائی کے نتیجے میں بچوں اور عام شہریوںکی ہلاکت کی مکمل ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے ،بے بنیاد ہے ۔بین الاقوامی تنظیمیوں کو ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ حماس نے اسکولوں اور اسپتالوں میں اڈے قائم کر رکھے ہیں جو اسرائیلی فوج کو بمباری کا جواز فراہم کرتے ہیں ۔ خود اسرائیلی اخبار ’ہا آرٹز‘ میں شائع ایک مضمون میں بھی اسرائلی کاروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔لیکن اِس بات کا سہرا اسرائیل کو جاتا ہے کہ اُس کی فوج کی کاروائی کے خلاف اسرائیلی اخبارات میں ایسے مضامین شائع ہوتے ہیں اور اُن پر پابندی نہیں لگائی جاتی ۔تاہم اسرائیلی دانشور اور مصنف یوال نوحا ہراری نے اِس معاملے میں بزدلی کا مظاہر کیا اور اپنی ریاست کے مظالم کو بے نقاب کرنے کی بجائے ایک گول مول سی ٹویٹ کرکے بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جو اِس پائے کے دانشور کے شایان شان نہیں تھی ۔جہاں تک حماس کی بات ہے تو اسرائیلی علاقوں پر راکٹ داغنے میں حماس نے پہل کی جو سراسر حماقت تھی ،جس کی قیمت بے گناہ فلسطینیوں کو چکانی پڑی۔
مغربی دنیا اسرائیل کے ساتھ کیوں ہے؟اِس لیے کہ اسرائیل انہیں یہ باور کروانے میں کامیاب ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے دفاع میں کرتا ہے ، اُس کی سرحدیں غیر محفوظ ہیں جس کی وجہ سے اسے سیکورٹی حصار قائم رکھنا پڑتا ہے۔اسرائیل کے پاس ایک بیانیہ anti semitismکی شکل میں بھی موجود ہے ،جہاں کہیں مسلمان اسرائیل کی بجائے لفظ یہودی استعمال کرکے تنقید کرتے ہیں ،ساری دنیا اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے ۔ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح ہر مسلمان عرب نہیں اور ہر فلسطینی مسلمان نہیں (پی ایل او میں مسیحی میں شامل تھے ) اسی طرح ہر یہودی اسرائیلی نہیں ،دنیا میں بے شمار یہودی صیہونی ایجنڈے کے مخالف ہیں ۔لیکن اِن تمام باتوں کے باوجود آخری تجزیے میں اسرائیل پر امریکہ اور مغربی دنیا کا موقف سوائے بد معاشی کے اور کچھ نہیں، انجلا مرکل جیسی عورت بھی اسرائیل کے مظالم کو نظر انداز کرکے اُس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کرکھڑی ہے جوشرم کا مقام ہے ۔ اسرائیل فلسطینی علاقوں پر قابض ہے ، یہ بات اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ ہے۔ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہوتا ہے ، انسانی حقوق کی پامالی کرتا ہے ، حق دفاع کے نام پر بے دریغ بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرتاہے ۔تاہم حماس بھی اسرائیلی شہریوں کے قتل سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی ۔
حل کیا ہے؟ اسرائیل فلسطین کے مسئلے کا حل امریکی صحافی فرید ذکریا نے دیا ہے ۔فرید ذکریا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا جی ڈی پی مصر کے مقابلے میں چودہ گنا اور سعودی عرب سے دگنا ہے ،فوجی قوت میں بھی اسرائیل کا کوئی مقابل نہیں ، اُس کی معیشت اس قدر مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے کہ کسی قسم کے بائیکاٹ کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔اِن حالات میں فلسطینیوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ دنیا کو اخلاقی دلیل سے قائل کریں کہ نوّے لاکھ اسرائیلی پچاس لاکھ فلسطینیوں کو بغیر کوئی سیاسی حق دیے اُن پر حکومت کر رہے ہیں جو آج کی دنیا میں ناقابل قبول بات ہے ۔ یہ واحد راستہ ہے جو فلسطینیوں کے حق میں عالمی رائے عامہ ہموار کر سکتا ہے ۔باقی رہا عالم اسلام، اُس کی آنیاں جانیاں ہم نے دیکھ لی ہیں!
اسرائیل کا مقدمہ کیا ہے؟ اسرائیل کا مقدمہ یہ ہے کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے جسے امریکہ اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے ، حماس کا نعرہ ’اسرائیل کی تباہی ‘ ہے ۔ حماس کی عملداری غزہ میں ہے جہاں اُس نے اسکولوں ، اسپتالوں اور سول عمارتوں میں اپنے دفاتر اور اڈے قائم کر رکھے ہیں ، یہاں سے حماس کے دہشت گرد اسرائیل کے شہری علاقوں پر راکٹ برساتے ہیں ۔اسرائیل کو مجبوراً اپنے دفاع میں کاروائی کرنی پڑتی ہے اور حماس کے اِن ٹھکانوں کو نشانہ بنانا پڑتا ہے ۔ حماس چونکہ جان بوجھ کر عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے اِس لیے اسرائیل کے حملوں میں بچے اور عورتیں بھی ہلاک ہوتے ہیں مگر اِس کی تمام تر ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے ۔ثبوت اِس کا یہ ہے کہ حالیہ حملے بھی صرف حماس کے ٹھکانوں پر کیے گئے جو غزہ میں قائم ہیں جبکہ مغربی پٹی پر اسرائیل نے کوئی بمباری نہیں کی۔جہاں تک اسرائیل اور فلسطین کے زمینی تنازعے کا تعلق ہے تو فلسطین کے پاس غزہ اور مغربی پٹی کی شکل میں اپنا علاقہ ہے ، انہیں مسجد اقصی ٰ میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے ،لیکن اسرائیل چونکہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھرا ہے اِس لیے ریاست اسرائیل کو اپنی حفاظت کے لیے سیکورٹی حصار قائم رکھنا پڑتا ہے جس کی بنیاد پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے جبکہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا اسرائیل کی مجبوری ہی نہیں بلکہ اُس کا فرض ہے۔
فلسطینیوں کا مقدمہ کیا ہے؟فلسطینیوں کا مقدمہ یہ ہے کہ اسرائیل اُن کی زمین اور بیت المقدس پر قابض ہے، اقوام متحدہ بھی فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی کہتا ہے ۔فلسطینی اتھارٹی کوئی ریاست ہے اور نہ اِس کی کوئی حیثیت، یہ اسرائیل کی ایک کالونی ہے جہاں اسرائیلی فوج کی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ، کسی قسم کی تجارت اور نقل و حرکت اسرائیل کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی ،فلسطین خود سے کوئی چیز درآمد کر سکتا ہے نہ برآمد ، ایک طرح سے فلسطینی اسرائیل کے قیدی ہیں جن کے کوئی سیاسی حقوق نہیں۔اِن حالات میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا اُن کا حق ہے ، یہی حق حماس استعمال کرتا ہے جو دہشت گردی نہیں بلکہ حق خود ارادیت ہے۔حالیہ تنازعے میں جب فلسطینیوں نے شیخ جرحہ میں اسرائیلی آباد کاروں کے خلاف دھرنا شروع کیا تو اسرائیلی فوجیوں نے اُس کا جواب تشدد سے دیا ، فلسطینیوں کے خلاف کاروائی میں اسرائیلیوں نے مسجد اقصی ٰ میں اُن پر فائرنگ کی ،جواب میں حماس نے اسرائیل پر راکٹ فائر کیے جبکہ اسرائیل نے جوابی کاروائی میں غزہ کو بمباری کرکے کھنڈر بنا دیا، دنیا نے اپنی آنکھوں نے غزہ کی شہری عمارتوں کو زمین بوس ہوتے دیکھا، بچوں کو اسپتالوں میں ایڑھیاں رگڑ کر مرتے دیکھا۔اگر اسرائیل کے دس لوگ مرے تو فلسطین کے دو سو سے زائد جن میں ایک ، دو ، چار اور پانچ سال کے بچے بھی شامل تھے ۔

بشکریہ اردو کالمز