غزل شام

 ملک کے مختلف شہرو ںمیں ادبی‘ ثقافتی اور تفریحی تقاریب منعقد ہوتی رہتی ہیں‘کراچی میں تو تقریبات کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ایک ادبی میلہ وہاں اس ہفتے اختتام پذیر ہوا۔ لاہور تو پاکستان کا ثقافتی مرکز ہے‘الحمرا میں آئے دن کوئی نہ کوئی تقریب منعقد ہوتی رہتی ہے‘اسلام آباد بھی پیچھے نہیںہے‘یہاں ستمبر2019 میں ادبی میلے کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں ایک کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی‘ پشاورمیں ایسی سرگرمیاں شاذ و نادر دیکھنے میں آتی ہیں‘ اس جمود کو گزشتہ دنوں نظامت ثقافت نے توڑا اور نشتر ہال میں دو تقاریب منعقد کیں‘اس نظامت نے پچھلے ہفتے ’ایک شام غزل کے نام‘ (ماخام غزل غزل) منعقد کی جس میں مینہ گل‘ سرفراز خان اور فیاض خےشگی نے گلوکاری کے جوہر دکھائے۔ ہال میںموجود نوجوان کئی بار جھوم اٹھے اور ماحول کو گرما دیا۔ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پشاور کی رونقیں بحال ہونے لگیں اوریہاں بھی خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔گذشتہ چالیس سال میں افغانستان کے حالات کی وجہ سے جو صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ خےبر پختونخوا ہے اسکے مرکزی شہر پشاور نے بہت برے دن دیکھے۔ شکرہے اب حالات بدل گئے ہیں اور شہر میں سکون ہے‘اس امرکی طرف مہمان خصوصی صوبائی اسمبلی کے سپیکر مشتاق غنی نے بھی اپنی تقریر میں اشارہ کیا کہ پشاور اب پرامن ہے اسلئے ایسی خوبصورت شام کا اہتمام ممکن ہو سکا ہے‘انہوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ ایسی تقاریب علاقائی زبانوں ہندکو اور کوار (چترالی) ایبٹ آباد‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور چترال میںبھی منعقد ہو نی چاہئیں‘ہم پروگرام شروع ہونے سے پہلے نشتر ہال پہنچے۔ متعلقہ عملہ انتظامات میں مصروف تھا سازندے طبلہ‘ہارمونیم اور ستار بجانے میں مصروف تھے‘۔

 ایک فنکار گانے کی مشق کر رہا تھا ایک محترمہ انتظامات کا جائزہ لے رہی تھی‘یہ تقریب کے دوران بھی سرگرم عمل رہی‘یہ موسیقاروں اور فنکاروں کو ہدایات دینے سے لیکر مہمانوں کو خوش آمدید کہنے اور نشستوں پر بٹھانے تک ہر کام خود سرانجام دے رہی تھی‘یہ ڈائریکٹر شعبہ ثقافت محترمہ شمع نعمت تھی‘ اپنے کام سے اس قدر لگن ہم سب کو ہو جائے تو مملکت خدادا د جنت بن جائے‘ تقریب کی کامیابی کابین ثبوت یہ تھا کہ ہال میں چھ سو کرسیاں کم پڑگئیں اور کئی لوگ سیڑھیوں پر بیٹھ کر یا ہال کے کونوں میں کھڑے ہو کر موسیقی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ویسے کئی موقعوں پر ایسا لگ رہا تھا جیسے غزل نے یہ شام کچھ زیادہ ہی کلاسیکی بنادی تھی اور ہونا بھی چاہئے تھا اسلئے کہ یہ شام غزل کے نام تھا‘ ویسے ہمیں پشتو کی معروف عوامی اصناف جیسے نظم‘چار بیتہ اور لوبہ جیسے شاعری کوبھی اہمیت دینی چاہئے اسلئے کہ عوام انہیں پسند کرتی ہے۔ہمارے ہاں تقریبات عموماً دیر سے شروع ہوتی ہیں۔

 لوگ اپنی حیثیت منوانے کی غلط فہمی پر مبنی خواہش میں دیر سے آتے ہیں‘یہ تقریب بھی ایک گھنٹہ سے زیادہ تاخیر سے شروع ہوئی‘اس کے علاوہ شام غزل جیسے تقریب میں سٹیج کے سامنے تصاویر لینے والوں اور مہمانان گرامی کی خدمت میں چائے پانی پیش کرنےوالوں کی سرگرمیوں سے ناظرین کی یکسوئی متاثر ہوتی ہے لیکن جو لوگ فن میں ڈوبنے کا فن جانتے ہیں ان کےلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔نظامت ثقافت نے اس سے پہلے مایہ ناز گلوکار ہدایت اللہ کی یاد میں بھی تقریب منعقد کی تھی‘یہ ایک قابل تحسین قدم ہے‘ہدایت اللہ زندگی کے آخری آیام میںایک طویل عرصے تک صاحب فراش رہے اور کسمپرسی کا بھی شکار رہے‘ ہمیں چاہئے کہ ایسے نابغہ ہائے روزگار ہستیوں کی قدر انکی زندگی میں بھی کریں۔ آج بھی ایسے بہت سے فنکار ہیں جو بے قدری اور کسمپرسی کے دن گزار رہے ہیں‘ان کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ خوش قسمتی سے صوبے کے موجودہ چیف سیکرٹری ایک ادب دوست گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور خود بھی ادبی اور علمی شخصیت ہیں اور یہاں کے ادیبوں اور شاعروں نے ان سے بہت ساری توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں‘ امید ہے وہ ان کی فلاح و بہبود کےلئے اقدامات کریں گے ‘خاص کر جو ادیب‘شاعر اور فنکار بیمار ہیں اور غریب بھی‘ ان کے علاج معالجے کا انتظام ہوناچاہئے‘یہ اکثر تنگدست رہتے ہیں اسلئے کہ انہوں نے کبھی سرمایہ داری کا فن نہیں سیکھا ہوتا ہے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج