179

بلدیاتی حقوق کا معمہ

سپریم کورٹ نے سندھ میں بلدیاتی اداروں کو موثر بنانے کے لیے مقامی حکومتوں کو مالی انتظامی اور سیاسی اختیارات دینے کا حکومت سندھ کو پابند بنا دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سندھ کے عوام کی بڑی فتح ہے۔ خاص طور پرکراچی جو تین کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی والا شہر ہے ، اس کے بلدیاتی اداروں کے حقوق پر ڈاکا ڈال کر اس شہرکو مفلوج بنا دیا گیا تھا۔ اب سندھ حکومت کی بلدیاتی اداروں کے حقوق کوکم کرنے کی کسی بھی چال کو قبول نہیں کیا جائے گا ، اسے ہر حال میں پورے کے پورے بلدیاتی اختیارات عوامی نمایندوں کو تفویض کرنا ہوں گے۔

سندھ کے شہریوں کا ایک طویل عرصے سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ انھیں بلدیاتی اختیارات دیے جائیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ غیر سول حکومتوں نے بلدیاتی الیکشن کرائے اور انھیں اختیارات بھی تفویض کیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گلی محلے کے مسائل بآسانی حل ہونے لگے اور مقامی سطح پر شہریوں کی شکایات کا ازالہ ہونے لگا ۔

 
دوسری جانب جمہوری حکومتوں ہی نے عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالا اور بلدیاتی الیکشن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنی شروع کر دیں۔اور اگر مجبورا الیکشن کرانا بھی پڑے تو بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور فنڈز دینے میں انتہائی بخل کا مظاہرہ کیا ۔سپریم کورٹ نے واضح طور پر اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ صوبائی حکومت آئین کے آرٹیکل 140Aکے تحت مقامی حکومتوں کو جو بلدیاتی اختیارات دیے گئے ہیں ، وہ انھیں واپس کرنے کی پابند ہے۔


 
سندھ حکومت کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ قوانین کی ان شقوں میں تبدیلی کرے جہاں صوبائی اور مقامی حکومتوں کے اختیارات میں تضاد ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقامی حکومت کے تحت آنے والا کوئی بھی کام صوبائی حکومت شروع نہیں کرسکتی ، یعنی اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتی۔ ماسٹر پلان بنانا اور اس پر عمل درآمد کرنا لوکل باڈیزکے اختیارات میں ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خاص طور پرکراچی کی تمام ہی سیاسی جماعتوں نے خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اسے اپنی جدوجہد کا ثمر قرار دے رہی ہے۔ اس فیصلے پر سب سے زیادہ ایم کیو ایم پاکستان خوش ہے اور وہ اسے اپنی پٹیشن کی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ اس فیصلے پر ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد میں جشن منایا گیا اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ ادھر تنظیم بحالی کمیٹی ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ فیصلہ ان کی اپنی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔


 
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلہ جماعت اسلامی کی طویل جدوجہد اور موقف کی تائید ہے، ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس نے کراچی کے عوام کے حقوق کو بحال کرانے کے لیے سب سے زیادہ محنت کی ہے۔ سندھ اسمبلی کے سامنے اس کا 29دن کا دھرنا اصل کام کرگیا ہے پہلے خود سندھ حکومت نے ہمارے موقف کو تسلیم کیا اور بلدیاتی اختیارات بحال کرنے کے لیے تیار ہوگئی اور اب عدالت عظمیٰ نے بھی کراچی کے عوام کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔

دھرنے پر بیٹھی پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ بلدیاتی حقوق سے متعلق عدالتی فیصلہ تو آگیا ہے مگر اصل مسئلہ سندھ حکومت کو ملنے والے 1200 ارب روپے کی سالانہ تقسیم کے فارمولے کو طے کرنا ہے ، تاکہ کراچی سے کشمور تک کسی بھی ڈسٹرکٹ کو صوبائی حکومت سے اپنے اخراجات کے لیے بھیک نہ مانگنا پڑے جس طرح صوبوں کو وفاق سے پیسوں کے لیے بھیک نہیں مانگنا پڑتی کیونکہ صوبوں کو ایک فارمولے کے تحت پیسے مل جاتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اور ان کے کارکنان اس وقت تک دھرنے کو ختم نہیں کریں گے ، جب تک بلدیاتی اداروں کو ایک فارمولے کے تحت پی ایف سی نہیں دیا جاتا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور بلدیاتی حقوق مکمل بحال نہیں کیے جاتے۔ ادھر پیپلز پارٹی کے رہنما اور ایڈمنسٹریٹرکراچی مرتضیٰ وہاب نے پی ایف سی کے بارے میں ایک بہت ہمت افزا بیان دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ نئی بلدیاتی حکومت بنتے ہی صوبائی فنانس کمیشن قائم کردیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اس بیان سے پیپلز پارٹی کی قیادت بھی متفق ہے؟ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کو وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے اختیارات تو نہیں دیے جاسکتے۔

سندھ حکومت بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم اسمبلی میں کرے گی۔ عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ضرور کیا جائے گا مگر صرف واضح شقوں پر عملدرآمد کیا جائے گا، باقی پر عدالت سے وضاحت طلب کی جائے گی۔ سندھ حکومت اگرچہ اس وقت نئے بلدیاتی بل کے بارے میں سیاسی پارٹیوں کے سخت احتجاج سے گھبرائی ہوئی لگتی ہے پھر اب سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس کے مزید حوصلے پست کر دیے ہیں وہ جماعت اسلامی کو ضرور نئے بل سے عوام مخالف شقوں کو نکالنے پر تیار ہوگئی ہے مگر پھر بھی مکمل طور پر بلدیاتی حقوق بحال کرنے سے پس و پیش کا شکار ہے ، لگتا ہے وہ اب بھی کچھ بلدیاتی اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔

وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کی پابند ضرور ہے مگر بل میں ترمیمات کے لیے اسے اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے بھی ضرور رجوع کرنا ہوگا اور ترمیمات کے لیے اس کی اجازت لینا ہوگی کیونکہ سندھ میں کوئی بھی قانون اس کی اجازت کے بغیر اور مفادات کے خلاف نہیں بن سکتا۔ اگر غورکیا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ بلدیاتی ایکٹ میں پہلے جو ترمیمات کی گئی تھیں وہ پارٹی کی اعلیٰ کمان کی ہدایت کے مطابق ہی کی گئی ہوں گی۔ چنانچہ اب پورے بلدیاتی ایکٹ کو بحال کرنے کے لیے بھی اس کی اجازت لینا ہوگی۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے واضح طور پر کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ ہے مگر ایکٹ کو بحال کرنے میں ان کے بھی کچھ تحفظات ہیں جن کو ضرور ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔ اب جہاں تک ایم کیو ایم کا معاملہ ہے وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر جشن منا رہی ہے اور اپنی پٹیشن کی کامیابی پر فخر کر رہی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی سندھ حکومت میں شمولیت کے وقت ہی بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم کرکے اس کے پرکاٹ دیے گئے تھے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

بشکریہ ایکسپرس