1285

برطانیہ پر بُرا وقت پڑا ہے

مصیبتوں کے بارے میں ایک بات تو طے ہے۔کبھی تنہا نہیں آتیں۔آتی ہیں غول بیا بانی کی طرح اور انسان کو اس الجھن میں ڈال کر شاید لطف لیتی ہیں کہ وہ کیا کرے اورکیا نہ کرےلیکن اس بار مصائب کا جو ریلا آیا ہے، اُس نے آنے سے پہلے دائیں بائیں بھی نہیں دیکھا، بس چلا آیا۔ہماری زمین کا کوئی گوشہ محفوظ نہیں،سبھی کی پشت پر کسی بھاری پتھر کی طرح سوار ہے اورایک عجب بات یہ کہ کتنے ہی سمجھ رہے ہیں کہ مصیبت بس اُسی پر آئی ہے۔میں تو برطانیہ کو جانتا ہوں۔مشکلوں نے تو گویا گھر دیکھ لیا ہے۔ یہاں یوں آئی ہیں جیسے اب جانے کا نام نہیں لیں گی۔

سب سے بڑا عذاب انگلستان کے وزیر اعظم بورس جانسن پر ٹوٹا ہے۔ ہر طرف سے آواز بلند ہورہی ہے کہ استعفیٰ دو کہ یہ شخص حکمرانی کا اہل نہیں۔ ایک معمر رکن پارلیمان کو کہتے سنا گیا کہ میں نے اتنا بُرا وزیراعظم آج تک نہیں دیکھا۔ وزیر اعظم کا قصور اتنا ہے کہ کورونا کی وبا نے سر اٹھایا تو اس نے مرض کوپھیلنے سے روکنے کے لیے ملک کے عوام پر کچھ سختیاں نافذ کرنے کا اعلان کیا۔چہرے پر نقاب باندھو، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھو۔ مجمع نہ لگاؤ۔ پارٹیاں دعوتیں اور ضیا فتیں نہ کرو اور ممکن ہو تو گھر بیٹھو۔ لوگوں نے یہ اعلان سنا اور بے چوں وچرا اسے قبول کرلیا۔وزیر اعظم نے غضب یہ کیا کہ اپنے ہی گھر میں چپ چپاتے احباب کامجمع لگاکر پارٹی دے ڈالی۔یوں کہیے کہ قانون بنایا اور خود ہی توڑ دیا۔ ایسی باتیں کہیں چھپتی ہیں۔ اخبار والوں کو اس موج مستی کی نہ صرف تفصیل مل گئی بلکہ تصویریں بھی ہاتھ لگ گئیں۔غضب ہوگیا۔ انگلستان میں تو ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اور ساتھ ہی استعفے کا مطالبہ سر اٹھانے لگا۔ خیال تھا کہ جیسے ہوتا آیا ہے،وقت گزرے گا اور سارے معاملے پر خاک پڑ جائے گی۔مگر وہاں توا یک اور قیامت سر پر منڈلانے لگی۔ پتہ چلا کہ بورس جانسن نے کئی پارٹیاں دے ڈالیں اور ان کے عملے نے ان کی سال گرہ کا جشن بھی منایا۔ ایک پارٹی کے دعوت نامے میں لکھا تھا کہ اپنی شراب اپنے ساتھ لے کر آئیے۔بس اس وقت سے طوفان برپا ہے اور وزیر اعظم دو بار معافی مانگ چکے ہیں اور اپنی صفائی میں جتنی دلیلیں دے سکتے ہیں، دے چکے ہیںلیکن گرد بیٹھنے کا نام نہیں لے رہی ۔ان کی پارٹی کے اندران کی مخالفت زور پکڑ رہی ہے اور لگتا ہے وزیراعظم کا جانا ٹھہر گیا ہے۔

یہ اور اس طرح کے قصے تو چلتے ہی رہتے ہیں۔اس سے بھی زیادہ خطرناک منظر روس اور اس کے پڑوسی ملک یوکرین کی سرحد پر دیکھنے میں آرہا ہے۔مغربی ملک چاہتے ہیں کہ یوکرین ان کے زیر اثر رہے تاکہ روس کے گرد ان کا گھیرا تنگ ہو جائے۔ روس چاہتا ہے یوکرین اس کا تابع دار بن کر رہے تاکہ روس کی سرحد محفوظ رہے۔ تازہ صورت حال یہ ہے کہ سرحد پر روسی فوجیں کیل کانٹے سے پوری طرح لیس ہوکر بالکل تیار کھڑی ہیں۔ یوں کہ اشارہ ملتے ہی وہ یوکرین میں داخل ہوجائیں گی۔امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے روس سے کہا ہے کہ خبردار جو تم نے یہ حماقت کی۔ روس کہتا ہے کہ یورپ کے ملک اور امریکہ دانا ڈال ر ہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ روس پہل کرے اور لڑائی چھڑ جائے۔محاذ گرم ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا خیر کرے۔ اگر چھڑگئی تو یہ یورپی جنگ ہوگی جس کی تپش ساری دنیا تک پہنچے گی۔

دنیا ئے صحافت میں یہ قول باربار سننے میں آتا ہے کہ اچھی خبر، خبر نہیں ہوتی۔یہ بات ہے تو چلتے چلتے انگلستان کی یہ بپتا بھی سن لیجئے۔ برطانیہ میں مہنگائی اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ پچھلے آٹھ برسوں میں کبھی اتنی گرانی نہیں ہوئی۔ سبب وہی تیل کا رونا دھونا ہے۔ زمین سے بلاقیمت ابلنے والی عجیب سیاہ دولت ہے جس کا کوئی دین ہے نہ دھرم جب چاہے مہنگی ہوجائے جب چاہے سستی۔اب رہ گئے غریب ملک کے غریب عوام کہ قیمت گرے توان کے حصے میں کچھ نہیں آتا اور قیمت بڑھے تو فوراً ہی ان کی جیبیں ٹٹولی جاتی ہیں۔سوچتا ہوں کہ اگر غریب نہ ہوتے تو دنیا کا نظام کیسے چلتا۔

بشکریہ جنگ  
 

بشکریہ جنگ نیوزکالم