جماعت اسلامی کے بعض اعزازات ایسے ہیں جن کا اعتراف اُن کے حلیف ہی نہیں حریف بھی کرتے ہیں۔ ان اعزازات میں دیانت و امانت، خدمت خلق، جرأت و بیباکی، دورِ جدید کا علمی و فنی شعور، اسلام و جمہوریت کے ساتھ سو فیصد سچی کمٹمنٹ اور پارٹی کے اندر باقاعدہ انتخابات بہت نمایاں ہیں۔ جماعت اسلامی کو جہاں کہیں خدمتِ عوام کا کوئی سرکاری موقع ملا تو اُس کی پرفارمنس دیکھ کر وہ حکمران اور سیاست دان بھی اش اش کر اٹھے جو جماعت سے سیاسی اختلافات رکھتے تھے۔
شہر کراچی نے آٹھ برسوں کیلئے بلدیہ عظمیٰ کی کنجیاں جس امیر شہر کے حوالے کی تھیں وہ فقیر منش اور درویش صفت خدمت گار تھا۔ 1979ء سے 1987ء تک عبدالستار افغانی دو بار میئر کراچی منتخب ہوئے۔ میئرشپ کا چارج لینے کے بعد عبدالستار افغانی کا پہلا ہدف بلدیہ عظمیٰ کراچی کو کرپشن سے پاک کرنا تھا۔ افغانی صاحب نے کراچی میں صحت و صفائی اور تعلیم و ٹرانسپورٹ وغیرہ کے شعبوں میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔
اُن کے بعد نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے 2001ء سے 2005ء تک کراچی شہر کو پلوں، سڑکوں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، لائبریریوں، پارکوں، کھیل کے میدانوں، تعمیراتی منصوبوں اور غریب آبادیوں کو ترقیاتی سہولتوں سے آراستہ کر کے انہیں مالکانہ حقوق دیئے۔ اُن کی شاندار کارکردگی دیکھ کر اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کراچی آئے اور خان صاحب سے ملاقات کر کے میئر کی حیثیت سے اُن کے ترقیاتی کاموں کو بے حد سراہا اور انہیں بتایا کہ اُن کے انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹ کے مطابق آپ یا آپ کے ماتحت عملے کے دامن پر کرپشن کا معمولی سا بھی داغ نہیں مگر ہم اپنی ''سیاسی مجبوریوں‘‘ کی بنا پر آپ کو اگلی ٹرم کے لیے میئر نہیں بننے دیں گے۔
جنرل محمد ضیاء الحق، کہ دین داری اور دیانتداری کی شہرت رکھتے تھے، نے بھی عبدالستار افغانی کی دیانتداری کو دل و جان سے تسلیم کیا اور اُن کے ترقیاتی کاموں کی بہت تعریف کی تھی مگر انہوں نے بھی اپنے ''نظریۂ ضرورت‘‘ کے مطابق میئر عبدالستار افغانی کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ غوث علی شاہ کے ذریعے بزورِ طاقت میئرشپ سے ہٹوا دیا تھا اور انہیں سو کونسلروں کے ساتھ حوالۂ زنداں کردیا تھا۔ دونوں حکمرانوں نے ان دیانتدار اور خدمتگار میئرز کے بجائے کراچی میں جن لوگوں پر اپنا دست شفقت رکھا انہوں نے سابقہ ترقیاتی منصوبوں کو تباہی و بربادی سے دوچار کیا اور اپنے دورِ اقتدار میں شہر قائد کو مقتل بنا دیا۔
مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے مگر بعض سیاسی جماعتوں کے نزدیک اس کی آبادی تین کروڑ سے کم نہیں۔ عروس البلاد کے اکثر مکینوں کو پانی ملتا ہے نہ بجلی اور نہ ہی گیس۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں، گلیوں اور سڑکوں پر سیوریج کا گندا پانی بہتا رہتا ہے اور جابجا گندگی کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ تقریباً ایک ماہ سے جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دیئے بیٹھی ہے۔ اس دوران شدید نوعیت کا طوفانِ بادوباراں بھی آیا اور جماعت والوں کے خیمے بھی اُکھڑے مگر انہوں نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کردیا۔ سندھ کے کچھ وزیروں نے حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات بھی کی مگر ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ بدھ کے روز ایم کیو ایم کے چند سو کارکنوں نے وزیر اعلیٰ ہائوس کے باہر بلدیاتی بل کے خلاف دھرنا دیا۔ دھرنے کے شرکا پر پولیس نے شدید لاٹھی چارج کیا جس سے ایک شخص ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ سندھ حکومت کا یہ رویہ قابل مذمت ہے۔
ہم نے فون پر حافظ نعیم الرحمن سے پوچھا کہ کیا آپ اپنی متاعِ گم گشتہ یعنی کراچی کی میئرشپ دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ حافظ صاحب نے کہا کہ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اگلا میئر بلدیہ عظمیٰ کون ہو گا؛ البتہ جس مسئلے کے لیے ہم دھرنا دیئے ہوئے ہیں وہ صرف ہمارا نہیں تمام سیاسی جماعتوں اور سارے اہل کراچی کا مسئلہ ہے۔ ہم صوبائی حکومت سے وہ اختیارات واپس لینا چاہتے ہیں جو انہوں نے کراچی کارپوریشن سے غصب کر لیے ہیں۔ ہم لندن، پیرس، نیویارک، استنبول اور تہران کی طرز پر مقامی حکومت کے ذریعے کراچی کو ایک خوش حال، محفوظ اور صاف ستھرا ماڈل شہر بنانا چاہتے ہیں۔
ہم نے چند سال قبل استنبول کے میٹروپولیٹن مقامی حکومت کے چھ سات منزلہ سیون سٹار ہوٹل کی طرح صاف ستھرے مرکزی دفاتر کو وزٹ کیا تھا اور وہاں کئی ذمہ داروں سے ملاقات کی تھی۔ استنبول کی میٹروپولیٹن گورنمنٹ کو سٹی کونسل تشکیل دیتی ہے۔ یہ استنبول میٹروپولیٹن کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ایک ہی جماعت کو دوسری ٹرم کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا۔ پچھلی ٹرم رفاہ پارٹی کے ہردلعزیز میئر رجب طیب اردوان نے لگن، دیانتداری اور جانفشانی سے کام کیا اور استنبول کے شہریوں کو وہ سہولتیں بہم پہنچائیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی محال تھا۔ یقینا یہ اُنہی خدمات کا ثمر ہے کہ آج رجب طیب اردوان ترکی کے نہایت مقبول صدر ہیں۔ استنبول کارپوریشن کے دائرہ اختیار میں پبلک تعمیرات، صحت، تعلیم، ماحولیات، پانی، ٹریفک، ٹرانسپورٹ، آبادی، زمین کی رجسٹری اور دیہی خدمات شامل ہیں۔
2001ء میں نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے استنبول میٹروپولیٹن کے ماڈل کے مطابق کراچی شہر کی بہت خدمت کی۔ 2013ء میں پیپلز پارٹی نے مقامی حکومت سے ٹرانسپورٹ، پانی، بلڈنگ کنٹرول، کے ڈی اے، سالڈ ویسٹ اور ماسٹر پلان کے ادارے چھین لیے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں پارکوں میں شادی گھر اور شاہراہوں پر نسلہ ٹاور جیسی کئی کئی منزلہ عمارتیں کھڑی کر دی گئیں۔ 2021ء کی قانون سازی میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کے تقریباً تمام شعبوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کراچی کو بھی اندرونِ سندھ کی طرح برباد کر کے اس کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ ہماری ساری سیاسی جماعتیں چاہے وہ سندھ کی ہوں، پنجاب کی، خیبرپختونخوا کی یا بلوچستان کی، وہ اوّل تو بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہونے نہیں دیتیں اور اگر عدالتوں کے احکامات پر انہیں یہ انتخابات کروانے پڑیں تو پھر وہ ایسی قانون سازی کرتی ہیں کہ جو مقامی حکومت کو بے روح اور بے اختیار ڈھانچہ بنا دیتی ہیں۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز وہی کام بھونڈے اور بھدے طریقے سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کا نہیں بلدیاتی اداروں یا مقامی حکومتوں کا ہوتا ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ نہ ان سے گلی محلے کے کام ہوتے ہیں نہ ان سے حکومت چلتی ہے۔
حافظ نعیم الرحمن صاحب بھی جماعت اسلامی کے سابق میئرز جناب افغانی اور نعمت اللہ خان کی طرح خدمت خلق کے راستے پر گامزن ہیں۔ اہل کراچی کئی سال پر محیط خوفناک اور بھیانک فضا سے باہر آ چکے ہیں اس لیے وہ حافظ صاحب کی پکار پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے سیاسی حقوق کیلئے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر رہی ہے اور اسلام آباد میں دھرنا دینا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی اچھی مثال قائم کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے اہل کراچی کو اُنکے چھینے ہوئے اختیارات واپس کر دے۔
ہم نے حافظ نعیم الرحمن سے پوچھا کہ آپ کا ٹھنڈا میٹھا دھرنا کب تک جاری رہے گا؟ انہوں نے کہا: جب تک ہم بلدیہ عظمیٰ کے اختیارات سے پیپلز پارٹی کا قبضہ نہیں چھڑا لیتے۔ مگر یہ ہزاروں کا دھرنا اگلے چند روز میں لاکھوں کا ہوجائے گا۔