اہلِ مصر فخریہ کہتے ہیں: مَنْ شَرِبَ مِنَ النِّیْلِ یَعُوْدُ اِلَیْہِ۔ کہ جو ایک بار دریائے نیل کا پانی پی لیتا ہے وہ دوبارہ اس کی طرف لوٹے گا۔ مصر قدیم و جدید تہذیب و ثقافت کا مرکز ہے اس لیے ہمارے مصری بھائی اپنے وطن کی مدح سرائی میں مبالغہ آرائی بھی کرتے ہیں۔گزشتہ چند مہینوں میں مجھے دو بار جہلم حاضری دینا پڑی۔ پہلی بار کچھ اہلِ نظر ہستیوں کی کشش مجھے وہاں لے کر گئی اور دوسری بار‘ تین چار ہفتے قبل مجھے ایک تقریب میں جانا پڑا، تب مجھ پر منکشف ہوا کہ دریائے نیل والی مٹھاس اور جاذ بیت دریائے جہلم کے پانی میں بھی پائی جاتی ہے۔
ہماری فصلوں کی سیرابی اور کھیتوں کی شادابی و ہریالی میں دریائے جہلم کے پانیوں کی فیاضی کا بہت بڑا دخل ہے۔ اسی طرح دفاعِ وطن میں جہلم کے کڑیل جوانوں کی خدمات بھی باعثِ تحسین ہیں۔ دورِ جدید کے جہلم کا ایک تعارف بک کارنربھی ہے۔ اس کتب خانے کے بانی شاہد حمید صاحب نے عسکری مزاج اور سیاسی شہرت رکھنے والے شہر جہلم کو اپنی جولاں گاہ بنایا۔اُن کے صاحبزادگان دورِ جدید کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا کر اعلیٰ معیار کی ادبی کتب کو ملک کے کونے کونے میں ہی نہیں دنیا کے کونے کونے میں بھی اردوداں اہل ِذوق تک پہنچا رہے ہیں۔
چند ہفتے قبل گگن شاہد صاحب کا مجھے فون آیا کہ ہم جہلم میں ایک کتاب میلے اور مشاعرے کا اہتمام کررہے ہیں۔ آپ کو ہم اس میں بحیثیت رائٹر مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کنٹونمنٹ ایریا کے جواں سال منتظم اعلیٰ غلام محمد ابڑو نہایت جوش و خروش سے اس تقریب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے تگ ودود کررہے ہیں۔ گگن صاحب سے تو میں نے معذرت کرلی مگر ایک دو روز کے بعد مجھے غلام محمد ابڑو صاحب کا محبت آمیز فون آیا۔ اُن کے اصرار کے سامنے مجھے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ بقولِ ایک شاعرہ :
چلے ہی جاتے ہیں جب اس طرح پیام آئے
حسنِ انتظام اور اہلِ جہلم کے ذوق و شوق کے اعتبار سے یہ ایک یادگار تقریب تھی۔ کتاب میلے کے مرکزی شاعر جناب انور مسعود تھے۔ اُن کی موجودگی میں کسی اور کا چراغ کم ہی جلتا ہے۔ کتاب میلے میں ہم نے کتاب بینی اور کتاب کی کرامات کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کیں جنہیں باذوق اہلِ جہلم نے نہایت انہماک سے سنا مگر یہ میلہ جناب انور مسعود لوٹ کر لے گئے۔ پنجابی زبان کے اس عظیم شاعر کی ''لوٹ مار‘‘ کا راز بھی آج ہم قارئین کو بتائیں گے مگر پہلے کتاب کے حوالے سے میری گفتگو کا خلاصہ ملاحظہ فرما لیجئے۔
مولانا عبدالکلام آزاد فرمایا کرتے تھے کہ زندگی کا سب سے بڑا نشاط کتاب کی رفاقت ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ایک اچھی کتاب آپ کی زندگی کا رخ موڑ دیتی ہے اور آپ کو نئی دنیائوں سے آشنا کر دیتی ہے۔ اگرچہ آج لوگوں کا زیادہ وقت کتاب کے بجائے سوشل میڈیا کو وزٹ کرنے میں گزرتا ہے۔ میں نے سامعین کو بتایا کہ کتاب آپ کو ایک نکتے پر مرتکز کرتی ہے جبکہ سوشل میڈیا آپ کی سوچ کو منتشر کر دیتا ہے۔ انسانی زندگی میں کتاب کی اہمیت و افادیت کے بارے میں جناب افتخار عارف نے کیا جامع شعر کہا ہے ؎
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک اُمید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
میں نے اپنی کتاب ''کنارے کنارے‘‘ کے ایک باب کنارِ نیل سے ایک مختصر اقتباس سامعین کو سنایا: اہل مصر اپنے دکھوں پر ہنسنا خوب جانتے ہیں۔ اُن کا رویہ بہت مثبت ہے ۔ کمرتوڑ گرانی ہو یا بے پناہ بے روزگاری‘ جنگ کے ہولناک بادل منڈلا رہے ہوں یا سیاسی حبس اپنی شدت کے ساتھ طاری ہو‘ وہ ہر المناک اور تکلیف دہ قومی موڑ پرایسے لطائف اور نکتے بیان کرتے ہیں کہ جن سے اعصاب کے تنائو کو ڈھیلا کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ ایسے لطائف گھنٹوں اور منٹوں میں عوامی چوپالوں اور ریستورانوں سے لے کر حکومتی ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں (یہ سوشل میڈیا کے عام ہونے سے پہلے کی بات ہے)۔
حاضرین میں ایک ایسے صاحبِ کتاب بھی موجود تھے جن کی کچھ ہی عرصہ قبل ایک تحقیقی و تاریخی کتاب بزبانِ انگریزی منظرعام پر آئی تھی جسے ملک کے اندر اور باہر عوامی و عسکری حلقوں میں بہت پذیرائی نصیب ہوئی۔ میں نے کتاب اور صاحبِ کتاب کا حاضرین سے ان الفاظ میں تعارف کروایا ''آپ نے ایسے سپاہی کے بارے میں کم ہی سنا ہوگا جس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قلم وقرطاس ہو۔ ایسا سپاہی جو پہلے تاریخ رقم کرتا ہے پھر اسے قلم بند کرتا ہے‘‘۔اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سپاہی مصنف فتوحات نویسی سے آگے بڑھ کر اپنے مشاہدات کو تحقیق کے ترازو میں تولتا اور پھر اپنے نتائج کو عالمی معیار پر یوں مرتب کرتا ہے کہ ایک طرف اس کی کتاب ''مستقبل کا تحفظ‘‘ ایک تحقیقی دستاویز بن جاتی ہے اور دوسری طرف دہشت گردی سے نبردآزمائی کے لیے ایک گائیڈ بک وجود میں آجاتی ہے۔ یہ کارنامہ حاضر سروس بریگیڈیئر ڈاکٹر عمرستار نے انجام دیا ہے۔
قارئین! اب آئیے جناب انور مسعود کے اُس راز کی طرف جس کی بنا پر وہ ہر میلہ لوٹ لیتے ہیں۔ مجھے بحیثیت کالم نگار اور تجزیہ کار اُن کے ساتھ امریکہ کے مختلف شہروں میں سفر کا موقع ملا تھا۔ وہاں بھی انہوں نے ہر شہر میں میلہ لوٹا۔ راز اس کا یہ ہے کہ جناب انور مسعود بیک وقت فارسی‘ اردو اور پنجابی زبانوں کے ماہر بھی ہیں اور ان زبانوں کی لطافتوں اور نزاکتوں کے رمزآشنا بھی ہیں۔ اُن کا زیادہ تر کلام پنجابی میں ہے اور وہی اُن کی شان اور پہچان ہے مگر انہوں نے اردو میں بھی لاجواب اشعار کہے ہیں۔ یہ شعر اردو سے اُن کی عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے ؎
ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز
شکر ہے انورؔ مری سوچیں علاقائی نہیں
جناب انور مسعود ایک زندہ و تابندہ لیجنڈ ہیں جنہوں نے اپنی شگفتہ بیانی سے تین چار نسلوں کو محظوظ کیا ہے۔ موصوف اپنے کلام میں اعلیٰ ادبی و لسانی معیار قائم رکھتے ہیں اور ابتزال کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ وہ عمیق مشاہدے کو اپنی محنت و مہارت سے ایک لاجواب تخلیقی شاہکار بنا دیتے ہیں۔ شاعر موصوف کے سینے میں دلِ مومن ہے اور وہ مثبت معاشرتی و سماجی اقدار پر یقین کامل رکھتے ہیں اور اپنے کلام میں اُنہی کا اظہار کرتے ہیں۔ مزاح نگاری کا اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ قاری یا سامع کی آنکھوں میں ہنستے ہنستے رنگِ ملال آجائے اور اس کے سامنے سوچ کے کئی دریچے اور کئی زاویے وا ہو جائیں۔ یہی وہ راز ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران انور مسعود ہر دل کی دھڑکن بن چکے ہیں۔
جہلم کا یہ کتاب میلہ بھی جناب انور مسعود نے سابقہ روایات کے مطابق لوٹ لیا۔ اللہ اُن کی عمردراز کرے اور وہ یونہی '' لوٹ مار‘‘ کرتے رہیں‘ لوگوں کو ہنساتے اور اُن میں خوشیاں بانٹتے رہیں۔ کتاب کلچر رائج کرنے اور زندگی کی مثبت اقدار عام کرنے میں جہلم کینٹ کے جواں سال منتظم اعلیٰ جناب غلام محمد ابڑو اور معروف شاعرہ عاصمہ ناز کی کمپیئر نگ سے بک کارنر کے گگن شاہد اور امر شاہد کا سجایا ہوا یہ میلہ اہل جہلم تادیر یاد رکھیں گے۔