326

سیاسی بونچھال اور موسمی پرندے -

کچھ دنوں سے پاکستانی سیاست میں بونچھال آیا ہوا ہے ہر روز سیاست کروٹیں بدل رہی ہے کبھی سوشل میڈیا یہ خبر چل رہی ہوتی ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد آرہی ہے کبھی خبر آتی ہے کہ فاروڑڈ بلاک وجود میں آرہا ہے کبھی خبر آتی ہے کہ اپوزیشن ایک پیج پے نہیں اور حکومت ایک پیج پے ہے بابا ان کچے ذہنوں کو کون سمجھائے کہ عام آدمی کو اس سے کوئی سروکار نہیں عام آدمی اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے مہنگائی, بے روزگاری, ناانصافی, معاشرے میں عدم تشدد جیسی فضا پیدا ہورہی ہے حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں  بااثر افراد نے اپنی ہواؤں کا رخ موڑ دیا ہے شاید موجودہ حکومت سے پوری طرح مایوس ہوچکے ہیں موجودہ حکومت نے سوائے باتوں کے اور کچھ نہیں کیا –
پورے جمہوری نظام کو طاقتور قوتوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ امریکا، برطانیہ، یورپ اور یہاں تک کہ بھارت تک اس جمہوری نظام میں سرگرم سیاسی پارٹیوں کے منشور اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو ان میں بہت کم نظریاتی فرق نظر آئے گا۔ جب کہ نظریاتی اساس پر قائم سیاسی پارٹیاں دنیا کے ان جمہوری ملکوں میں ایک کونے میں پڑی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جن کا پرچم چند دیوانے اٹھائے پھرتے ہیں۔
سب کے منشور ایک جیسی طاقتوں  کے پاس ہوتے ہیں اور سب کے لیڈروں کو اشاروں پر نچانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مغربی ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ ایک تصور بہت مضبوط ہوا ہے کہ کوئی اپنی پارٹی چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں نہیں جا سکتا۔ 
شکست و فتح، دونوں صورتوں میں وہ سیاسی ورکر یا لیڈر پارٹی کے ساتھ منسلک رہتا ہے اور اپنی باری کا انتظار کرتا ہے۔ یہاں پاکستان میں تو موسمی پرندوں کی بھرمار ہے اشاروں پر گھونسلہ بدل دیتے ہیں -
انگلینڈ میں مشہور سیاسی رہنما چرچل کی ایک مثال ایسی ہے جس نے اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور جنگِ عظیم دوئم کے ہنگاموں میں اس کی یہ حرکت نمایاں نہیں ہو سکی تھی مگر لوگ بھولے نہیں –
چھوٹے ملکوں کی جمہوریتوں میں تو پارٹی بدلنا شیروانی بدلنے کے برابر سمجھا جاتا ہےجیسا  کہ پاکستان اور بھارت بلکہ جو کوئی پارٹی بدلتا ہے اس کے ساتھ یہ خبر بھی میڈیا نشر کرتا ہے کہ وہ اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت فلاں پارٹی میں شامل ہوا ہے۔ قبیلے، گروہ، جتھے اور برادریاں ان ملکوں میں مضبوط ہیں اور ان کا ملغوبہ ایک طاقت  ہوتی ہے جو جمہوری نظام کو چلاتی ہے۔ دنیا بھر میں عموماً ہر ملک میں دو یا تین سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں جو میدان سیاست پر چھائی ہوتی ہیں، باقی چھوٹی چھوٹی درجنوں پارٹیاں ہر ملک میں موجود ہوتی ہیں لیکن ان کی حیثیت ایک خاص طبقے، گروہ یا علاقے سے آگے نہیں بڑھتی۔
غیر سیاسی انتخاب، جمہوری نظام میں گالی کیوں ہیں ؟ آزاد امیدوار تھالی کا بینگن کیوں ہیں ؟ جیتنے کے بعد بھی وہ اس تلاش میں رہتا ہے کہ اسے کوئی صاحبِ اقتدار پارٹی اپنا لے اور اس کا الیکشن میں جیتنا کام آ جائے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں لوگوں کی سیاسی تربیت کرتی ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر کی زندگی اور سیاست کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو وہ ایک سطحی سی شخصیت نظر آئے گا۔ کیا بارک اوباما، جارج بش، ٹونی بلیئر، گورڈن براؤن، منموہن سنگھ، نریندر مودی، کیا یہ بڑے ذہن کے مالک ہیں ؟کیا انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو سیاسی فکر اور سوچ عطا کی۔ ہر گز نہیں۔ یہ تو اس  سیاسی جمہوری پارلیمانی نظام کے سانچے میں ڈھلے ہوئے روبوٹ ہیں جن کی تمام تر صلاحیتیں محدود ہوتی ہیں –
اس ، جمہوری، سیاسی، پارلیمانی نظام کے بنائے گئے پروگرام کے باہر جس نے بھی سوچنے کی کوشش کی، موت اس کا مقدر بنا دی گئی۔ مصر کے صدر مرسی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ آپ ایک سیاسی پارٹی بنا کر، سیاسی جمہوری نظام کا حصہ بن کر اس کے حدود و قیود سے تجاوز کرنے کی کوشش کر کے دیکھیں، آپ کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا۔ اس لیے کہ یہ سیکولر، سیاسی، جمہوری نظام کارپوریٹ سرمائے نے اپنے مقاصد کے لیے تخلیق کیا ہے۔ عوام کے لیے تجربہ گاہ نہیں بنایا۔ یہ نظام تو انھوں نے اپنے مفادات کے لیے تخلیق کیا ہے اور انھیں اس نظام کے چلا نے کے لیے روبوٹ چاہیں، جن کے نزدیک، ضمیر، اخلاق، سچ، اور اعلیٰ اقدار پر پارٹی مفادات مقدم اور محترم ہوں اور وہ ایسا کرنے کو جمہوریت کی بقا اور روح سمجھیں۔
دنیا بھر کی جمہوریتیں، سیاسی پارٹیوں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس نظام کی لگامیں اپنے ہاتھ میں رکھنی ہیں ان کے لیے ایک ایک فرد کو خریدنے کے بجائے پوری پارٹی کو خرید نا انتہائی آسان اور سہل ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں پارٹی فنڈنگ ایک ایسا تصور ہے جس کے تحت دنیا بھر کا سرمایہ دار اپنے کالے، نیلے پیلے اور سفید دھن کے تحفظ کے لیے اپنے سرمائے کا ایک حصہ ان سیاسی پارٹیوں کی نذر کرتا ہے۔
اربوں ڈالر ان پارٹیوں کے اکاؤنٹ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ اربوں ڈالر اگر ان پارٹیوں کے پاس نہ ہوں تو کوئی الیکشن تو دور کی بات جمہوریت کے بارے میں سوچنے کا بھی تصور نہیں کر سکتا۔ ہر ملک میں چند ہفتوں کے لیے الیکشن کا ایک خوبصورت میلہ سجتا ہے، اپنے اپنے ماحول کے مطابق جلسوں، ریلیوں، جلوسوں، رقص و سرود اور میلوں ٹھیلوں کے ذریعے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے ووٹ سے یہ حکومت بننے جا رہی ہے اور عوام ہی اصل طاقت ہیں جو سیاست دانوں کو حکمران بناتے ہیں۔
چند ہفتے عوام اس خوبصورت فریب میں مبتلا رہتے ہیں۔ کبھی ایک پارٹی اقتدار کی راہداریوں میں جاتی ہے اور کبھی دوسری۔ لیکن ان سب کے آقا، مربی، فنانسر اور ان کی لگامیں اپنے ہاتھوں میں رکھنے والے ایک ہی ہوتے ہیں۔ اسی لیے جب کوئی پارٹی مفادات، پارٹی ڈسپلن یا پارٹی گائیڈ لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہے تواسے غدار، جمہوریت دشمن، لوٹا، مفادات کا غلام قرار دیا جاتا ہے۔
پوری کی پوری پارٹی کو بیچ دیا جائے تو وہ عین جمہوریت، لیکن ایک فرد بکے تو یہ جمہوریت کی توہین ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ امریکا کے سرمایہ داروں نے32 ہزار ارب ڈالر کیمن جزیر ے میں اس لیے رکھے ہیں تا کہ ٹیکس سے بچا جا سکے لیکن امریکی جمہوریت میں دونوں پارٹیوں کا کوئی ایک رکن بھی آواز بلند نہیں کرتا سب کے سب پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں اور یہی اس جمہوری، سیاسی، پارلیمانی نظام کا کمال ہے۔
اخلاق، اقدار، روایات، سچ، ضمیر اور دیانت صرف اور صرف عام آدمی کے لیے۔ بڑا آدمی ضمیر کی آواز پر ایک تقریر کر کے خاموش ہو جاتا ہے۔ نہ وہ اپنے منصب سے استعفی دیتا ہے اور نہ ہی پارٹی سے اسے اپنے ضمیر کی آواز کو سلانے کا یہ صلہ ملتا ہے موقع کی مناسبت پر اسے پھر نواز دیا جاتا ہے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ، اس لیے رات و رات گمنام لوگوں کو بڑے بڑے عہدے دیکر شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا جاتا ہے –

بشکریہ اردو کالمز