تعریف سے ہی اپنا دامن بھرلیں گے

فون پر گھنٹی بج رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ اٹھاؤں کہ نہ اٹھاؤں‘ پاکستان پہنچ کر پی ٹی اے نے میرے باہر سے لائے ہوئے فون کو بند کردیا تھا‘ اب نئے فون میں پرانی سم ڈالی تو تمام نمبرز اُڑ گئے اور آپ سوچیں کہ فون گم جائے ٹوٹ جائے یا خراب ہو جائے تو کئی سو نمبر جو گیارہ ڈیجٹ پر مشتمل ہیں ان کو کیسے یاد رکھا جائے تمام رابطے منقطع ہوگئے ہم تمام لوگ اپنے اپنے فون کے نمبروں سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ایک دن کی جدائی گویا پہاڑ بن جاتی ہے میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ایسے میں ایک رانگ نمبر مجھے چونکا گیا لیکن میں نے اٹھا لیا گوجرانوالہ سے کوئی صاحب بول رہے تھے میرا نام لے کر پوچھا کہ میں وہی بول رہی ہوں  جواب سننے کے بعد بولا آپ کی کتاب ”میرا شہر دلبر“ میرے ہاتھ میں ہے آپ کا فون نمبر لکھا ہوا تھا سوچا کتاب کی تعریف کرلی جائے ایک دم سے جی خوش ہوگیا کسی بھی لکھاری کیلئے کسی قاری کا فون ای میل بہت ہی خوش کن ہوتا ہے میں نے پوچھا گوجرانوالہ میں آپ کو کتاب کہاں سے ملی بولا تھڑے سے‘ کباڑیا بیچ رہا تھا میرے تو اوسان خطا ہوگئے ابھی تو یہ کتاب شائع ہو کر باہر آئی ہے اور یہ فٹ پاتھ پر کیسے پہنچ گئی بھلا اس بے چارے کو کیا معلوم کہ پشاور سے نکلی ہوئی اس کتاب کا سفر گوجرانوالہ تک کس نے کرایا اپنی کتاب کی بے قدری پر چاہتی تھی کہ دل کو تھوڑا خفا کرلوں لیکن ایک دم یاد آیا کہ میں بھی تو کئی اتواریں راولپنڈی صدر کے تھڑوں پر نایاب کتب ڈھونڈنے میں گزارتی تھی اور وہاں ایسی ایسی کتابیں مجھے ملتی تھیں جو ادب کا شاہکار ہوتی تھیں بہرحال قدردان قاری کا شکریہ ادا کیا اور اسکے بے پناہ تعریفی جملوں کو ہی اپنی خوشی کا ذریعہ بناکر دل خوش کرلیا خوبصورت زمانے ہوتے تھے کہ جب لائبریریاں آباد ہوتی تھیں محلے کی لائبریری زندہ جاوید ہوتی تھی اور تشنگی کتاب مٹانے کا کام کرتی تھی کالج یونیورسٹی میں آہستہ چلتے تھے کہ کہیں لائبریری کا ماحول شور کی آلودگی سے خراب نہ ہو جائے کتاب ایشو کرواتے وقت دستخط کرتے تھے اور وقت پر واپس نہ کرنے کی صورت میں جرمانہ بھرتے تھے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی نایاب لائبریری اپنے قاری کی راہ دیکھتی تھیں قدر دان لوگ ایک دوسرے کو کتاب کا تحفہ دیتے تھے بلکہ جاننے والے لوگ کتابوں میں پھول رکھ  کر نذرانہ پیش کرتے تھے ایک زمانہ کہ  ایسی آندھی کی رفتار سے دوڑا کہ لائبریریاں سمٹ کر تالوں میں چلی گئی ڈبوں میں بند ہوکر چھپا دی گئیں لائبریریوں  نے شرط لگادی ادھر لائبریری ہی میں بیٹھ کر کتاب پڑھیں ایشو نہیں ہو سکتی اور محلے کی لائبریریاں اکثر ہی لنڈے کی دوکانوں سے  سج گئی شاید وہ کرایہ زیادہ دیتے ہونگے۔نفع نقصان کی تجارت ہوتی ہے اب لوگوں نے نقصان اٹھانا چھوڑ د یا ہے شاید وہ سمجھ دار ہوگئے ہیں اسلام آباد کے ایک بہت ہی مشہور ترین ثقافتی ادارے میں مادری زبان کا میلہ سج گیا پہلے تو میں نے اس بات کو حیرت کیساتھ سنا‘ کہ زبانیں میلے میں کیا کریں گی لیکن میں نے دیکھا پاکستان بھر کی بے شمار مادری زبانیں اپنی اپنی پوشاک اوڑھے ہوئے اس ثقافتی میلے میں شریک ہوئیں اور پھر جو کچھ کسی میلے میں ہوتا ہے انکے ساتھ بھی وہی ہوا ہر زبان میلے میں کھو گئی میلہ تو نام ہی ہے کھو جانے کا‘ بس زبانیں پہلے تو کچھ بولتی رہیں کچھ سنتی سناتی رہیں اور آخر میں وہ چھم چھم باہر سبزہ زاروں میں نکل گئیں میلے کے کئی کمروں میں پہنچ گئیں وہاں لگے ہوئے سٹالوں پر بیٹھ گئیں اور اس طرح کوئی زبان بھی صحیح سلامت نظر نہ آئی آج کل یہی حال کتابوں کے ساتھ ہو رہاہے دارلخلافے میں بھی کتابوں کا میلہ سج جاتا ہے کتابیں سج بن سنور کے دیدہ زیب بن جاتی ہیں اور خوب خوب خوش ہوتی ہیں بالکل ایسے ہی جیسے مشاعرہ اب کرسیوں پر بیٹھنے لگا ہے کبھی میں سوچتی ہوں کہ کچھ سالوں پہلے بھی ہمارے نامی گرامی شعراء فرشی نشست پر بیٹھ کر شعر پڑھا کرتے تھے ان میں سے کئی ایک کو کمزوری کا غلبہ ہوتا ہوگا بیٹھنے میں شاید دشواری بھی ہوتی ہو لیکن مشاعرہ ایسی صنف تھی جو فرشی نشست کی صورت میں باذوق لوگوں سے قریب ترین ہو کر پڑھا جاتا تھا شاید مشاعرہ بھی اب تعلیم یافتہ ہوگیا ہے ہاں میں نے دیکھا ہے جیسے جیسے ہم علوم حاصل کرتے جاتے ہیں فطرت سے دور ہوجاتے ہیں اور بہت حد تک تنگ نظر بھی ہوتے جاتے ہیں سوشل میڈیا پر شاعروں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے اور وہ اپنی ایسی ایسی شاعری ڈیزائننگ کرکے اپنی وال پر لکھتے ہیں کہ عقل حیران ہے کہ کیا لکھا ہوا ہے کون سا قافیہ ہے کون ساردیف ہے لیکن اس پر سہاگہ یہ کہ وہ تعریف نہ کرنے پر باقاعدہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں تجزیہ اور تبصرہ کرنے کو اصرار کرتے ہیں میں شاعرہ نہیں ہوں لیکن شعر پڑھنے اورسمجھنے کا ذوق شاید براڈ کاسٹنگ کی تربیت سے طبیعت میں موجود ہے اس لئے کسی بے تکے شعر کی تعریف نہیں کرسکتی وہ شاعر جو پیدائشی شاعر ہوتے تھے وہ تو کب کے مٹی تلے جاسوئے جنہوں نے کوئی کالج یونیورسٹی نہیں دیکھی تھی لیکن ان کی شاعری پڑھ کر زبان گنگ ہو جاتی ہے ایسا خیال ایسا جملہ ایسا مصرعہ کہ جو اللہ کی دین ہوتی ہے خود سے انسان کے بس کا روگ نہیں ہو سکتا باسط سلیم مرحوم ہمارے استاد تھے اور واقعی استاد ہونا ان پر شروع ہو کر ان پر ختم ہوتا تھا ان دنوں ٹیلی ویژن کی نئی نئی نشریات لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھیں ہفتے یا اتوار کی رات پاکستانی فلم لگتی تھی ایک عوام الناس کا ہجوم کالے اور سفید ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر یہ فلم رات دو تین بجے تک دیکھتا تھا باسط سلیم کہا کرتے تھے کہ لوگوں کو اپنا پسندیدہ پروگرام ٹی وی پر دیکھنے کیلئے آگ اور خون کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے جی یہ سچ ہے ٹیلی ویژن کے پاس ایک وقفے میں اتنے اشتہارات ہوتے تھے کہ آپ بازار جاکر سودا سلف لے آئیں اور دوبارہ آکر بیٹھ جائیں ٹی وی کے سامنے ابھی اشتہار چل رہا ہوگا جب کسی ادارے کو علم ہو کہ میں واحد ہوں تو اس کے نخرے آسمانوں پر ہو جاتے ہیں اب کتاب کی بے قدری اتنی ہو چکی کہ اس نے بھی سر تو جھکا کر سمجھوتہ کرلیا ہے کہ بھلے مجھے میلے میں رکھ دو مجھے فٹ پاتھ پر پہنچا دو بس مجھے کوئی پڑھ لے پبلشر جس طرح لکھاریوں کو بلیک میل کرتے ہیں لاکھوں روپے کتاب کی پبلشنگ کے لگتے ہیں پھر کتاب کی200روپے قیمت بھی لوگوں کو خریدتے ہوئے بہت مہنگی لگتی ہے لکھاری کو کوئی رائلٹی  کوئی معاوضہ دینے کا رواج مدتوں سے ختم ہی ہوگیا ہے خوش نصیب ہے فن کار جن کو اسٹیج کی کمپیئرنگ کرنے کے بعد بھی لفافہ ملتا ہے آخر کار لکھاری یا فن کار کی بھی زندگی کو روپے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے ہر جگہ روپیہ بہایا جاتا ہے بس جب کتاب لکھنے کا معاوضہ یا کتاب فروخت ہونے کے بعد اپنا حق مانگ لو جو رویہ اور سلوک آپ کو چاہے ملے گا بہتر ہے خاموش ہو جاؤ اور اپنی کتابوں کو سامنے فروخت ہوتے ہوئے دیکھو اور صرف اس بات پر خوش ہو جاؤ کہ چلو کتاب پر میرا نام لکھا ہوا ہے شاید کوئی فون کرکے تعریف کر دے اس تعریف سے ہی اپنا دامن بھرلیں گے اور ایک اگلی کتاب کو لکھنا شروع کر دینگے۔

بشکریہ روزنامہ آج