محوِ حیرت ہوں کہ یہ کیسے سیاستدان ہیں جو ''دستِ غیب‘‘ کی کارفرمائی اور ہنوز سرپرستی کا فخریہ چرچا کررہے ہیں۔ بعض سیاستدان ملک کے کچھ اہم اداروں کے خود ساختہ ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ایک طرف وہ جمہوری ملک ہیں جو صدیوں سے طے شدہ ڈگر پر چلتے چلے جا رہے ہیں اور ایک ہم ہیں جنہیں یہ معلوم نہیں کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
گزشتہ دو ہفتوں سے ہمارے سیاستدانوں کا محبوب مشغلہ ایک دوسرے پر الزام تراشی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی جگہ لینے کے لیے شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، ایاز صادق اور مفتاح اسماعیل نے خفیہ ملاقات کی ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کے بقول عمران خان کی جگہ لینے اور اسمبلیوں کو پوری مدت تک چلانے کے لیے پی ٹی آئی کے چار امیدوار لائن میں لگے ہوئے ہیں جن کا تعلق علی الترتیب جنوبی پنجاب، جہلم، کے پی اور کراچی و اسلام آباد سے ہے۔ ایک دوسرے پر سنگ باری کرتے ہوئے سیاستدانوں بالخصوص حکومتی پارٹی کے ترجمانوں کو کچھ خبر بھی ہے کہ جن کے ووٹوں سے وہ ایوانوں اور وزارتوں کی زینت بنے ہیں وہ کس حال میں ہیں۔
میں چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں کہ کل جب یہ لوگ ووٹ لینے گلی محلوں میں جائیں گے تو لوگ انہیں وہ ویڈیوز دکھائیں گے جن میں وہ منی بجٹ میں اربوں کے ٹیکس لگا کر، مہنگائی ساتویں آسمان پر پہنچا کر اور بچوں سے دودھ چھین کر، بزرگوں کو زندگی بچانے والی ادویات سے محروم کرکے اور عام آدمی کو بنیادی ضروریاتِ زندگی سے تہی دست کرکے خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ یہ وزرائے کرام اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے کبھی مخالف پارٹی کے اندر بغاوت کا شوشا چھوڑتے ہیں اور کبھی خفیہ ملاقاتوں کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔
ہماری معیشت حالتِ نزع میں ہے۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والی قومیں ہمیں عالمی گداگر سمجھتی ہیں۔ آئی ایم ایف ہمیں محض ایک ارب ڈالر کی قسط دینے کے لیے ہم سے وہ شرائط منوا رہا ہے جن کا کوئی مالی لحاظ سے خود مختار ملک تصور تک نہیں کر سکتا۔ ہمارا تجارتی خسارہ 24 ارب ڈالر کی تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ تیل و خوراک کے درآمدی بل میں جولائی تا دسمبر 73 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ بل پہلے 8.67 بلین ڈالر تھا‘ جو اب 14.97 بلین ڈالر ہوگیا۔
اوورسیز پاکستانی اپنے خون پسینے کی کمائی پاکستان بھیجتے ہیں جس سے ہمارا نان نفقہ کسی حد تک چل رہا ہے۔ ملک میں بیروزگاری عروج پر ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا بم پھٹنے کو تیار ہے۔ حکومت کروڑوں انسانوں کیلئے خوراک فراہم کرنے، علاج معالجہ مہیا کرنے اور اڑھائی کروڑ بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اب جناب وزیراعظم فرماتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو روزگار دینا بہت بڑا چیلنج ہے۔ تعلیم کو ملکی ضروریات سے منسلک نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں نوجوان ڈگریاں ہونے کے باوجود بیروزگار ہیں‘ آئی ٹی اور ٹیکنالوجی ہماری ضرورت ہے۔ حضور والا! یہ باتیں تو آپ ہمیں گزشتہ 22 برس سے بتاتے چلے آرہے ہیں۔
2018ء کے انتخابات سے پہلے آپ ہمیں مسلسل یہ خوشخبری بھی سناتے رہے ہیں کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے آپ نے بھرپور ہوم ورک کرلیا ہے۔ برسراقتدار آکر آپ نے ساڑھے تین برس میں اُن خوابوں میں سے کسی ایک کی بھی عملی تعبیر نہیں پیش کی جو طویل عرصے تک قوم کو دکھاتے رہے ہیں۔ یہ وقت تو آپ کی پرفارمنس کے حساب کتاب کا ہے اور آپ ہیں کہ وہی پرانی تقریر دُہراتے جا رہے ہیں۔
ہر ملک کے لوگ خوب سوچ سمجھ کر اپنا آئین وضع کرتے ہیں۔ برطانیہ میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔ اسی طرح امریکہ نے اپنے لیے صدارتی نظام کو منتخب کیا ہے۔ اب امریکہ کبھی پارلیمانی نظام اپنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘ اسی طرح برطانیہ صدارتی نظام کا نام لینے کو بھی تیار نہیں۔ ہم نے بھی اپنے حالات و ضروریات کے مطابق گہرے غوروفکر کے بعد 1956ء میں پارلیمانی دستور منظور کرلیا تھا؛ تاہم ہوسِ اقتدار نے طرح طرح کے گل کھلائے۔ ہمیں طے شدہ پارلیمانی راستے سے ہٹا کر صدر ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل محمد ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف نے امرت دھارے کے طور پر صدارتی نظام کو قبول کرنے کا حکم صادر کیا؛ تاہم قوم نے ہمیشہ اپنے لیے پارلیمانی دستور ہی پسند کیا۔
آج کل پھر مخصوص مقاصد کے لیے صدارتی نظام کا نام لیا جا رہا ہے جو میری نظر میں خلافِ آئین ہے۔ چودھری محمد سرور سر پر گورنری کا تاج پہن کر بھی حسب ضرورت حق گوئی سے کام لیتے ہیں۔ انہوں نے دو روز پہلے کہا کہ ہمیں صدارتی نظام کی بات کرکے نیا ''کٹا‘‘ نہیں کھولنا چاہئے۔ انہوں نے سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یاد دلایا کہ آئین کی پاسداری اور جمہوریت کی مضبوطی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کماحقہٗ پوری کریں۔
دوسری طرف احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان میں اندرا گاندھی طرز کی ایمرجنسی کی پھڑپھڑاہٹ سنی جا رہی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ صدارتی نظام کی آہٹ ہو یا کسی ایمرجنسی کی پھڑپھڑاہٹ، ان میں سے کوئی بھی چیز پاکستان کے حق میں نہیں۔ ہمارے وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب بھی ایک دلچسپ شخصیت ہیں۔ وہ ایک روز اپوزیشن قائدین پر گرجتے‘ برستے ہیں‘ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں‘ اُن کے کوچۂ سیاست سے بے دخل ہونے کی پیش گوئیاں کرتے ہیں اور اس سے اگلے روز ہی وہ اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش کرتے اور یہ فرماتے ہیں کہ ہم حزبِ اختلاف کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ چودھری صاحب کے بدلتے رنگ نرالے ہیں اسی لیے کوئی اُن کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔
ہمارے کوئی ایسے ذاتی و سیاسی ذرائع نہیں جن سے ہمیں اندازہ ہوکہ اسلام آباد، راولپنڈی اور لندن میں کون کیا سوچ رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کہاں کہاں کیا پیشرفت ہورہی ہے‘ لیکن ہمیں اتنا اندازہ ہورہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پہلے پنجاب میں بوجوہ تحریک عدم اعتماد لانے پر کسی حد تک سنجیدہ ہوگئی تھی؛ تاہم میاں نواز شریف کی سوچ یہ تھی کہ اس حکومت کو پہلے رخصت کیا جائے اور پھر نئے انتخابات ہوں‘ اس کے علاوہ کوئی آپشن قابل غور نہیں؛ البتہ اب مسلم لیگ (ن) کے بعض سنجیدہ سیاستدانوں کی رائے یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی بنا پر پاکستان عالمی سطح پر جن مالی و سیاسی پیچیدگیوں سے دوچار ہو چکا ہے اُن سے کوئی کیئر ٹیکر حکومت نہیں نمٹ سکے گی۔
ہمیں اب یہ محسوس ہورہا ہے کہ اس وقت میاں نواز شریف بھی پیپلز پارٹی کی تحریک عدم اعتماد کی تجویز سے متفق ہوچکے ہیں اور انہوں نے مولانا صاحب کو بھی اس پر قائل کرلیا ہے۔ غالباً اسی پس منظر میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد میاں شہباز شریف بطور ''بریج وزیراعظم‘‘ منصب سنبھال لیں گے جبکہ اس قومی حکومت میں تمام جماعتیں شامل ہوں گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ایک اور بات بھی عرض کردوں کہ یہ بندۂ عاجز مولانا فضل الرحمن کی رائے سے متفق ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے سر سے دستِ غیب اُٹھ رہا ہے۔ یہ دستِ غیب یا دستِ شفقت اب کس سر کو سرفراز کرے گا اس کے بارے میں ہماری معلومات کچھ زیادہ نہیں ہیں۔