50

لیکن نہ کھل سکا پس دیوار کون ہے

معروف امریکی مصنف ڈیل کارینگی نے کہا ہے ’’کوئی بھی احمق تنقید، شکایت اور مذمت کر سکتا ہے۔ سمجھنے اور دلیل سے بات کرنے کے لئے کردار اور ضبط نفس کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ ۔ ڈیل کارینگی کے افکار ہمیں پاکستان کے سیاسی حالات کو سمجھنے میں مدد گارہوسکتے ہیں۔ اپوزیشن تقریباً تین سال تک تو عمران خان کے طرز حکمرانی کی وجہ سے سکتے میں رہی۔ حکومت پر اچھالنے کے لئے کیچڑ ہی نہ مل سکا۔ مایوسی میں تنقید کی توپوں رخ اداروں کی طرف کرنا پڑا۔ وزیر اعظم نے دوست ممالک کی منت سماجت کر کے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے ساتھ کورونا کی عالمی وبا سے لڑنے کی کوشش کی۔امیر ممالک قرضوں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے اپنی شرائط پر ری شیڈول کر رہے ہیں تو عالمی مالیاتی ادارے مزید قرض کے لئے سخت شرائط رکھ رہے ہیں۔ جن میں مزید ٹیکسوں کا نفاذ اور غریب کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ شامل ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر حکومت کا نہ چاہتے ہوئے بھی 150اشیا پر سبسڈی ختم کرنا اور پٹرولیم مصنوعات میں آئے روز اضافہ پر مجبور ہونا اس کی مثال ہے۔ حکومتی مجبوریاں اور مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط پاکستان کی وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت کے لئے مزید تباہی لا رہی ہیں اور فاقوں سے خودکشی پر مجبور غریب کی زندگی مہنگائی کی وجہ سے اجیرن ہوتی جا رہی ہے۔ عوام کی حالت آفتاب رئیس پانی پتی کے اس شعر کے مصداق ہے: یوں اشک غم ٹپکتے ہیں آنکھوں سے قوم کی ممکن نہیں ہے ٹوٹنا اشکوں کے تار کا اپوزیشن عوام کو احتجاج پر اکسانے کے لئے مہنگائی کے اشکوں کے تار کوہتھیار کے طور پر استعمال کر نا چاہتی ہے۔سوال مگر یہ ہے کہ قوم کے اشکوں کا تار نہیں ٹوٹ رہا تو کیا اس کی ذمہ دار صرف حکومت ہے؟۔کیا عمران کے دور اقتدار سے پہلی حکومتوں نے مہنگائی کا جن کسی بوتل میں بند کر رکھا تھا؟اس کا احوال گزشتہ تحریر میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ایک مختصر ساجائزہ مشرف ‘زرداری‘نواز شریف اور عمران خان کے ادوار کا ضروری ہے۔ 2018ء میں ایک موقر روزنامے میں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کا مشرف‘ زرداری اور نواز شریف ادوار کا موازنہ پیش کیا گیا تھا۔ جس کے مطابق مشرف دور میںآٹا 17روپے ،چینی 25روپے، دال چنا 22روپے، دودھ 32روپے، گھی 80روپے فی کلو ملتا تھا۔2008ء میں عالمی کساد بازاری نے دنیا بھر کے ممالک کی معیشت کو نچوڑ کر رکھ دیا یہ پیپلز پارٹی کا دور تھا ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں آٹا 34روپے ،چینی 48روپے، دال چنا 40روپے ،دودھ 60روپے اور گھی 80روپے کلو ہو گیا۔ کھانے پینے کی اشیا میں مجموعی طور پر 50فیصد اضافہ ہوا ۔عوام کے ووٹ سے آنے والی حکومت مہنگائی کو تو نہ روک سکی مگراپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ملازمین کی تنخواہوں میں 200فیصد اضافہ کردیا۔ جس سے عوام مہنگائی کاجبر برداشت کرنے کے قابل ہوگئے۔ اگلے پانچ سال نواز شریف اقتدار میں رہے ان کو پیپلز پارٹی کی طرح عالمی کساد بازاری کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر نواز شریف کے ارسطو وزیر خزانہ نے عالمی مالیاتی اداروں سے بے تحاشہ قرض لئے جس کی وجہ سے مشرف دور میں 17روپے میں ملنے والا آٹا 42روپے، 25روپے فی کلو ملنے والی چینی 62روپے، 20روپے والی دال 150روپے میںفروخت ہونے لگی۔ دودھ 32سے 100 روپے اور گھی 80روپے سے 160روپے کا ہو گیا۔ نواز شریف نے تجارتی خسارہ 15ارب ڈالر سے بڑھا کر 24ارب ڈالر تک پہنچا دیا۔ حکومت نے 30ارب ڈالر کے مہنگے اور قلیل المدتی قرضے لئے۔ یہ نواز شریف کے ارسطو کے کارناموں کا ثمر ہے کہ عمران خان اپنے تین سال قرضوںاور سود کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ حکومت اپنے ساڑھے تین سال میں 39 ارب ڈالر کے قرضے اور سود ادا کر چکی ہے اور سالانہ 9ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے کے لئے مزید قرض اور مالیاتی اداروں کی سخت شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ مریم نواز عمران خان کو ایک ارب ڈالر قرض کے لئے سٹیٹ بنک کو خود مختاری دینے کا طعنہ تو دیتی ہیں مگر یہ نہیں بتاتیں کہ ان کے ابا حضور نے سٹیٹ بنک کی ضمانت پر 14138 ارب روپے کا اندرونی کا قرض لیا ۔ سٹیٹ بنک کی خود مختاری کے بعد مستقبل میں کسی بھی حکومت کو قرض کی یہ مے میسر نہ ہو گی۔ یہ وہ معاملات ہیں جن سے عام آدمی کو کوئی سروکار نہیں، غریب مہنگائی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا کر کوس رہا ہے جو ایک حد تک درست بھی ہے۔ مگر دوسری طرف حقائق ہیں جن کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ معروف معاشی جرنلسٹ کمبرلی ایڈ میو نے 22 نومبر 2021ء کو اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ 21صدی میں اشیاء ضروریہ کی قیمتوںمیں 3فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا تھا مگر ستمبر 2021ء میں عالمی سطح پر غذائی اجناس کی قیمتوں میں 37 فیصد اضافہ ہوا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کورونا کے بعدبڑھتی مہنگائی کے حوالے سے مضمون شائع ہوا جس میں گزشتہ برس گھی کی قیمت میں 22 فیصد گندم کی قیمت میں 40فیصد اضافے کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں اور کورونا کی وجہ سے عالمی سطح پر مزدوروں کی کمیابی بتائی گئی۔ انٹرنیشنل شپنگ اینڈ کارگو کی عالمی تنظیم کے ایک اہلکار نے 2021ء میں اپنے مضمون میں کورونا کی وجہ سے شپنگ لیبر کی قلت کی وجہ سے کرایوں میں 20فیصد اضافے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اٖضافہ، مہنگائی میں 15فیصد اضافے کی وجہ بتائی تھی۔ عمران خان حکومت کا المیہ یہ ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد عالمی سطح پر گندم کی قیمت میں 40فیصد اضافہ اور کھانے کا تیل محض گزشتہ برس 1500ڈالر فی ٹن سے 33 سوڈالر فی ٹن ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں گھی چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر مہنگائی دس سال کی ریکارڈ سطح پر ہے۔دنیا بھر میں گھی کی قیمت دوگنا ہو چکی ہے امیر ممالک اور پاکستان میں فرق صرف یہ ہے کہ امیر ممالک مہنگائی کی موجودہ لہر کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے عوام کو ریلیف مہیا کر ر ہے ہیں جبکہ پاکستانی حکومت قرضے واپس کرنے اور مزید قرضے لینے کے لئے عوام کو پہلے سے دی گئی سبسڈی بھی واپس لینے پر مجبور ہے۔ حکومت اورعوام دونوں کا مہنگائی کی دیوار کے نیچے دب کر دم گھٹ رہا ہے۔ عوام مہنگائی کی وجہ سے عمران خان کی حکومت کو کوسنے دے رہے ہیں مگر یہ دیوار گریہ گرائی کس نے، عوام کی بدھی جواب دے چکی ہے ۔ بقول نجیب احمد : پھر یوں ہوا کہ مجھ پہ ہی دیوار گر پڑی لیکن نہ کھل سکا پس دیوار کون ہے

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز