حکومت گھبراہٹ سے آگے بڑھ کر بوکھلاہٹ کے فیز میں داخل ہوچکی ہے۔ وزیراعظم جناب عمران خان روزانہ کی بنیاد پر اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ اُن کے پاس سوچنے اور غوروفکر کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ حکومتی حلقوں میں مجھے کوئی رجلِ رشید‘ کوئی صاحب ِفہم و فراست اور کوئی صاحبِ علم و دانش کم ہی نظر آتا ہے جو پیش بندی اور منصوبہ بندی کے اوصاف سے آراستہ ہو۔ لہٰذا کوئی نہ کوئی بقراط شرفِ تقرب کے لیے بظاہر کوئی پُرکشش سا آئیڈیا وزیراعظم کو پیش کر دیتا ہے۔ ہم نے بھی یہی سنا ہے کہ خان صاحب بھی سنی سنائی باتوں پر چل پڑتے ہیں۔ اور بقول شاعر انہیں یہ بتانے والا کوئی نہیں ہوتا کہ ع
ہر لرزشِ صبا کے کہے پر نہ جائیے
منی بجٹ‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان سے سٹیٹ کی بے دخلی اور ہوشربا مہنگائی کے صدمے سے لوگ ابھی باہر نہ آئے تھے کہ انہیں ایک اور تشویشناک خبر سننے کو ملی۔ ہفتے کے روز بعض اخبارات کی یہ شہ سرخی سامنے آئی تھی ''سرمایہ کاری کے بدلے غیرملکیوں کے لیے مستقل رہائش‘‘۔ خبر کی تفصیل میں لکھا ہے کہ ایک لاکھ ڈالر پاکستان لانے پر غیرملکیوں کو پانچ اور دس سال یا مستقل رہائش بلکہ شہریت بھی دی جا سکتی ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سہولت سے افغان‘ سکھ اور چینی باشندے فائدہ اٹھائیں گے۔ لگتا ہے کہ کسی نام نہاد ماہرِ معاشیات نے انٹرنیٹ پر امریکی انویسٹمنٹ E-B-5 ویزا کا پروگرام دیکھا ہوگا اور پاکستان کے جملہ معاشی مسائل کے حل کے طور پر پیش کر دیا ہوگا۔
امریکی انویسٹمنٹ ویزا کے لیے ایک لاکھ نہیں کم از کم پانچ سے دس لاکھ ڈالر کی بنیادی شرط عائد ہے۔ دیگر بہت سی شرائط اس کے علاوہ ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ لوگ امریکہ کی مستقل رہائش یا شہریت کیوں حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں؟اس لیے کہ امریکہ عسکری اور معاشی طور پر دنیا کی سپر طاقت ہے۔ اس کے شہری کو تقریباً دنیا کے ہر ملک میں بغیر ویزا داخلے کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی اعلیٰ ترین دانش گاہیں امریکہ میں موجود ہیں۔ اسی طرح سائنس اور طب وغیرہ کے میدان میں دنیا کا کوئی ملک امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ معاشی مواقع اور شہری آزادیوں سے مستفید ہونے کے لیے بھی لوگ امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔
پاکستان میں سرمایہ کاری کے ذریعے یہاں کی سکونت یا شہریت جو بھی حاصل کرے گا اس کے صرف دو اہداف ہوسکتے ہیں۔ پہلا ہدف تو ''مخصوص مقاصد‘‘ کا حصول اور دوسرا ہدف زیادہ سے زیادہ معاشی منافع۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم محض چند سو ملین ڈالرز کے لیے ہر مشکوک پس منظر اور مخصوص اہداف والے لوگوں کو اپنے ملک میں بلا کر اپنے لیے مزید مصائب و مشکلات کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ اللہ کرکے یہاں ہمیں خوفناک دہشت گردی سے کسی حد تک چھٹکارا ملا ہے۔ اب ہم اپنے افغان بھائیوں کو باقاعدہ قانونی سٹیٹس دے کر انہیں یہاں بلائیں گے اور اپنا امن عامہ اور معیشت اُن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے تو کون ہمیں عقلمند کہے گا۔
جہادِ افغانستان کے موقع پر جنرل ضیا الحق مرحوم کے عرفان سے بہت بڑی بھول ہوئی تھی جس کی قیمت ہم اب تک چکا رہے ہیں۔ انہوں نے افغان مہاجرین کو نہ صرف ملک کے اندر کہیں بھی آنے جانے بلکہ کاروبار کی بھی کھلی چھٹی دے دی تھی۔ جس کے نتیجے میں ہمارے ٹرک اور ٹرالر بزنس کا بہت بڑا حصہ افغان مہاجرین کے پاس چلا گیا ہے۔ اسی طرح خیبر تا کراچی سڑک کے دونوں کناروں پر اکثر ٹرک ڈرائیور ہوٹلوں کی ملکیت بھی اُن کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے پٹرول پمپوں کے مالکان بھی ہمارے افغان بھائی ہیں۔ یہ افغان مہاجرین پاکستان کے بڑے شہروں کے بڑے بڑے پلازوں‘ مارکیٹوں اور پلاٹوں کے مالکان بن چکے ہیں۔ افغانوں کی یوں آزادانہ آمدورفت کے نتیجے میں پاکستان میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کو بے حد فروغ ملا تھا۔ کیا ہم اسی بل سے دوبارہ ڈسے جانے کی تیاری کر رہے ہیں؟
صرف ایک لاکھ ڈالر کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے تو افغان یہاں بڑے بڑے کاروباروں کے مالکان تھے اور اب یہاں قانونی سٹیٹس مل جانے کے بعد وہ پرچون کے بزنس کو بھی اپنی تحویل میں لے لیں گے۔ جب ہم مستقل سکونت و شہریت افغانوں کے لیے آسان کر دیں گے تو ہر نظریے‘ ہر پارٹی اور ہر پس منظر کا افغان پاکستان کا قانونی رہائشی بن جائے گا۔ کیا ہم متحارب افغان گروہوں اور مختلف سیاسی جماعتوں اور نظریات سے تعلق رکھنے والے افغانوں کو پاکستانی شہریت دے کر پاکستان کو اُن کا نیا میدانِ جنگ بنانا چاہتے ہیں اور اپنے لیے مزید مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں؟
جہادِ افغانستان کے موقع پر ایران نے محدود تعداد میں افغان مہاجرین کو قبول کیا تھا اور انہیں مہاجر کیمپوں میں بسایا اور انہیں باقی ملک کے اندر کہیں آنے جانے کی آزادی ہرگز حاصل نہ تھی۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے تھا مگر ہم نے ایسی کوئی پیش بندی نہ کی اور ناقابل تلافی نقصان اٹھایا۔
پاکستان میں سکھوں کے کئی مقاماتِ مقدسہ ہیں جن کی ہم بخوبی حفاظت کرتے ہیں۔ کرتارپور راہداری کے قیام سے سکھوں کو ہندوستان اور دنیا بھر سے پاکستان آمدورفت میں بہت سہولت حاصل ہوگئی ہے جس کی سکھ برادری قدردان ہے؛ تاہم سکھ برادری ساری دنیا میں ہندوستان سے علیحدگی کی تحریک چلا رہی ہے۔ انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کے ذریعے لاکر بسانے کا مطلب بھارت یہ لے گا کہ ہم سکھوں کو ہندوستان کے پڑوس میں علیحدگی پسندی کا بیس کیمپ مہیا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارا مشرقی بارڈر بھی ایک بار پھر شدید ٹینشن کا شکار ہو جائے گا۔
جہاں تک چین کا تعلق ہے تو بلاشبہ وہ ہمارا ایک قابل اعتماد پڑوسی ہی نہیں‘ ایک مخلص اور قابل بھروسا دوست بھی ہے۔ مگر یہ حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہئے کہ چین ایک نظریاتی ملک ہے اور پاکستان بھی ایک نظریاتی ریاست ہے۔ دونوں کے نظریات میں بعُدالمشرقین ہے۔ ہمیں اسلام اور جمہوریت دونوں دل و جان سے بڑھ کر عزیز ہیں جن پر ہم رتی برابر بھی کمپرومائز کرنے کا سوچ نہیں سکتے۔ ہم غیرملکیوں کو بلا کر اُن سے دوچار سو ملین ڈالر لے کر کیا اپنی پراپرٹی‘ اپنا بزنس‘ اپنا مذہبی و سماجی ڈھانچہ اُن کے حوالے کرنے کا رسک لے سکتے ہیں؟
بعض حکومتی افلاطون یہ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ تو یہاں سرمایہ کاری کرنے آئیں گے۔ اُن کے مذہبی و سیاسی نظریات کا ہم سے کیا لینا دینا۔ تو یہ دانشور اس حقیقت سے ناآشنا ہیں جسے ممتاز تاریخ داں پروفیسر ٹائن بی نے بیان کیا تھا کہ جب آپ کسی کلچر کا صرف ایک جزو لیں گے تو اس کے ساتھ اُن کی پوری تہذیت بھی چلی آئے گی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی انڈیا میں ایک بزنس کمپنی کے طور پر اپنی انٹری کی راہ ہموار کی تھی اور بعد میں سینکڑوں برس ہندوستان پر حکومت کی۔
ہم کئی مرتبہ نہایت وضاحت سے ان کالموں میں لکھ چکے ہیں‘ اپنے ٹی وی پروگراموں میں بیان کر چکے ہیں اور مختلف ذرائع سے حکومتوں کو بتا چکے ہیں کہ اگر پاکستان میں مصری ماڈل کے مطابق سمندر پار پاکستانیوں کے لیے بدعنوانی سے پاک سرمایہ کاری کی پرکشش سہولتیں موجود ہوں تو لاکھوں اوورسیز پاکستانی یہاں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ اپنوں کو چھوڑ کر آپ غیروں کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں اور مہیب خطرات کیوں مول لے رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ پارلیمنٹ جیسے کسی مناسب فورم پر یہ تجویز زیر غور آئے گی تو فوراً مسترد ہو جائے گی کیونکہ اس میں خطرات ہی خطرات ہیں اور فوائد کی زیادہ امید نہیں۔