امریکی ایڈمرل میک ایون نے یونیورسٹی آف ٹیکساس کے سالانہ جلسۂ تقسیم اسناد کے موقع پر 2014ء میں ایک یادگار خطاب کیا تھا۔ چند روز قبل ایک دوست نے مجھے اس تقریر کا کلپ بھیجا۔ میں نے اس خطاب کو سنا اور پھر اس کا ٹیکسٹ پڑھا بھی۔ فی الواقع یہ خطاب سننے کے لائق ہے۔
ایڈمرل میک ایون 36 برس قبل اسی یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ ان کے سامنے 8000 اہل دانش کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا جن میں ممتاز اہل علم اساتذہ اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ و طالبات شامل تھے۔ ایڈمرل نے حاضرین کو بتایا کہ وہ چھ ماہ تک مسلسل تپتی دوپہروں میں صحرائوں کی خاک چھانتے اور وہاں عسکری مشقوں کے دوران دوڑتے بھاگتے رہے۔ انہوں نے طلبہ و طالبات کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ وہ ان مشقوں کے دوران راتوں کی تاریکی میں، سمندروں کی گہرائیوں میں گھنٹوں تیرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ اس جان لیوا تربیت کے ابتدائی مراحل مکمل کرنے والے امیرالبحر کی حس مزاح بھی بے مثال تھی۔
ایڈمرل نے نوجوان حاضرین کو بتایا کہ 36 برس قبل اسی جگہ پر اپنے کانووکیشن کی کچھ یادیں ان کے لوحِ ذہن میں اب تک تازہ ہیں: میری اوّلیں یاد یہ ہے کہ اس یادگار روز سے پہلے والی رات کو ایک پارٹی میں ہم چند دوست تا دیر جاگتے رہے تھے‘ اس لیے مجھے آج تک اُس روز کا شدید سر درد نہیں بھولتا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہال میں وہ کلاس فیلو بھی موجود تھی جسے میں نے اپنی شریک حیات منتخب کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ اور آج ہال میں میری وہ شریک حیات موجود ہیں اور مسکرا رہی ہیں۔ تیسری یاد یہ ہے کہ میں نیوی کے کمیشن کے لیے منتخب ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایڈمرل نے تالیوں کی گونج میں بتایا کہ باقی مجھے مطلق یاد نہیں کہ مہمان خصوصی نے کیا کہا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ اُن کا خطاب خاصا طویل تھا لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں مختصر تقریر کروں گا تاکہ آپ لوگوں کی دلچسپی قائم رہے۔
مہمان خصوصی نے نوجوانوں سے کہا کہ یقینا آپ کو معلوم ہو گا کہ ہماری یونیورسٹی کا یہ سلوگن ہے کہ آج آپ اس دانش گاہ میں جو کچھ سیکھتے ہیں کل اس سے آپ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ امیرالبحر نے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ و طالبات کو بتایا کہ انہوں نے بحریہ اور رزم گاہ ہستی میں سالہا سال کی ریاضت سے جو کچھ سیکھا‘ اُس کا نچوڑ دس سنہری اصول ہیں۔
میک ایون نے کہا کہ آپ کا کسی مذہب سے تعلق ہو، آپ کا کوئی بھی سوشل بیک گرائونڈ ہو اور آپ کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں، سب کے لیے یہ اصول یکساں طور پر کارآمد ہوں گے۔ یہ اصول صرف طلبہ و طالبات کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے کے افراد اور معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے جادو کا اثر رکھتے ہیں۔ ہم نے ان اصولوں کی تفصیل کو اجمال کے کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے اور دس کے عدد کو گھٹا کر آٹھ کر دیا ہے۔ پہلے آپ یہ اصول ملاحظہ کیجئے اور پھر ہم یہ جائزہ لیں گے کہ کیا یہ سنہری فارمولا ہماری سوسائٹی کے لیے بھی جادو اثر ثابت ہو گا یا نہیں۔
امیرالبحر نے بتایا کہ آپ اپنی صحت کا آغاز اپنے بستر کو ترتیب دینے اور کمرے میں پھیلی ہوئی چیزوں کو سمیٹنے سے کیجئے۔ یاد رکھیے کہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے دوران سیکھا ہوا نظم و ضبط زندگی میں بڑے بڑے کارنامے انجام دینے میں بہت ممد و مفید ثابت ہوتا ہے۔ مہمان خصوصی نے کہا: دوسرا اصول یہ ہے کہ کبھی ون مین شو کے گھمنڈ میں مبتلا نہ ہونا۔ تمہارے ارادوں کی تکمیل کے لیے بہترین ٹیم کا تمہارے ساتھ ہونا ازبسکہ ضروری ہے۔
گویا وہی بات جو علامہ اقبال فرما گئے تھے:
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
تیسرا اصول یہ ہے کہ تگ و تاز حیات میں کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہونے کے لیے جسم کی نہیں دل کی کلیدی حیثیت ہے۔ چوتھا اصول یہ کہ ہر حال میں محنت جاری رکھو۔ آندھیاں چلیں یا طوفان آئیں آپ نے ہمت نہیں ہارنی۔ یہ وہی بات ہے جو ہم اہل پاکستان کو ایک شاعر بتا گئے تھے کہ
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے
پانچواں قاعدہ یہ ہے کہ زندگی میں قدم قدم پر آپ کا واسطہ شارکس سے پڑے گا۔ شارکس سے مراد تکالیف و مصائب ہیں۔ آپ نے ان مصائب کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنے اور ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔
امیرالبحر کا بتایا ہوا چھٹا اصول آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ زندگی میں جب آپ پر تاریکیوں اور مایوسیوں کی یلغار ہو جائے تو آپ نے ہرگز مایوسی کا شکار نہیں ہونا کیونکہ قانونِ فطرت یہ ہے کہ سخت رات کے بعد سحر طلوع ہوکر رہتی ہے۔ اسی قاعدے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مہمان خصوصی نے ساتواں لاجواب اصول یہ بیان کیا کہ جب کسی دلدل میں کندھوں تک پھنس جائیں تو آپ اپنے اعصاب کو قابو رکھتے ہوئے گنگنانا شروع کر دیں۔ اس موقع پر آپ اپنے ساتھیوں کو ہرگز مایوس اور پریشان نہ ہونے دیں اور انہیں پورے تیقن کے ساتھ بتائیں کہ یہ کٹھن وقت بھی گزر جائے گا۔
میک ایون نے اپنے خطاب کے آخر میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب میں آپ کو وہ بات بتائوں گا کہ جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر آپ ان سنہری اصولوں سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ اور سب سے آخری اصول یہ ہے کہ دنیا کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ محض چاہنے، دعوے کرنے، دن میں خواب دیکھنے اور دوسروں کو سنہری خواب دکھانے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ یہ وہی اصول ہے جو قرآن پاک کی سورۃ الصف میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ ''اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر تم عمل نہیں کرتے‘‘۔
آئیے اب ان سنہری اصولوں کے آئینے میں اپنا جائزہ لیتے ہیں۔ ہر روز ہمارے سامنے کوئی نیا سانحہ، کوئی نیا حادثہ اور کوئی نیا ایسا واقعہ رونما ہوتا جو ہمیں یہ حقیقت یاد دلا جاتا ہے کہ
قوم کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
انہی سنہری اصولوں کا ایک گلدستہ بابائے قوم محمدعلی جناح ہمیں دے گئے تھے مگر ہمارے حکمرانوں نے روزِ اوّل سے قانون کے بجائے لاقانونیت کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ حکمران قانون کی پابندی نہیں کرتے اور عوام ڈسپلن کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
میری ایک سٹوڈنٹ مس واعظہ رفیق ابھی حال ہی میں انگلستان سے بار ایٹ لاء کر کے پاکستان لوٹی ہیں۔ انہوں نے دو روز قبل مجھے بتایا کہ وہاں لوگوں کی اکثریت قوانین اور ڈسپلن کی از خود پابندی کرتی ہے اور اس کے لیے پولیس اور فوج بلانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہوتی۔ چند مہینوں کے لیے جب کورونا شدت اختیار کر گیا تھا، اُس وقت حکومتِ برطانیہ نے چھ سے زائد افراد کے بیک وقت ایک جگہ اکٹھے ہونے پر قدغن لگا دی تھی جس پر ہر جگہ بغیر کسی نگرانی کے مکمل عمل درآمد کیا گیا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب تک ہم من حیث القوم اپنی عادات بدلنے کا فیصلہ نہیں کرتے اس وقت تک ہمارے حالات نہیں بدل سکتے۔