بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ چار پانچ سالہ عائزہ اپنے والدین سے ضد کر رہی ہے کہ وہ اسے برفباری دکھانے سردیوں کی چھٹیوں میں مری لے جائیں۔ یہ 28 دسمبر منگل کا دن تھا۔ میں نے پیار سے عائزہ کو اپنے پاس بٹھایا اور اسے اسی روز کے اخبار میں ایک بڑی تصویر دکھائی جس میں نیومری میں لوگ برف میں پھنسے ہوئے تھے۔ تصویر کے ساتھ ہی ایک ثقہ اخبار کی خبر تھی کہ سوموار 27 دسمبر کو مری میں 50 ہزار گاڑیاں داخل ہوچکی ہیں جبکہ وہاں صرف چار ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے۔
میں نے عائزہ کو ساتھ لیا اور اسے اپنے پورچ میں کھڑی دو گاڑیاں دکھاتے ہوئے کہا :پیاری بیٹی! یہ بتائو کہ یہاں اور کتنی گاڑیاں پارک کی جا سکتی ہیں؟ عائزہ نے کہا :زیادہ سے زیادہ ایک اور۔ میں نے کہا: اگر یہاں دس گاڑیاں اور آجائیں تو کیا وہ کھڑی کی جاسکتی ہیں۔ بچی نے بات سمجھتے ہوئے کہا :ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ میں نے کہا :اس وقت یہی صورتِ حال مری کی ہے۔ ایسی حالت میں کیا وہاں برفباری دیکھنے جانا چاہئے۔ عائزہ نے کہا: بالکل نہیں جانا چاہئے۔
اگلے روز صبح عائزہ میرے پاس آئی اور اس نے کہا: دادا! مجھے ایک آئیڈیا سوجھا ہے۔ میں نے کہا کہ بتائو کیا آئیڈیا ہے۔ اس نے کہا: میں اپنے بابا سے کہوں گی وہ ہمیں اسلام آباد سے مری پنکھے والے جہاز میں لے جائیں‘ گاڑی میں نہیں۔ عائزہ کی دادی بول پڑی: مگر بیٹا! تمہارے بابا کے پاس تو جہاز نہیں۔ ننھی گڑیا نے کہا: دادی کوئی بات نہیں وہ انکل عمران خان سے ایروپلین لے لیں گے۔ سب ہنس پڑے مگر میں نے عائزہ سے کہا کہ اگر تمہارے بابا کو جہاز مل جائے تو پھر تم مری جانا مگر گاڑی میں ہرگز نہ جانا۔ عائزہ نے کہا :دادا! وعدہ ہوا میں ایسا ہی کروں گی۔ اور پھر واقعتاً اُس نے اپنا وعدہ نبھایا۔
معصوم بچی کو کیا معلوم تھا کہ اُس کے انکل عمران اور اُن کے ماتحت حکمرانوں کے ہیلی کاپٹرز‘ اُن کی کرینیں‘ اُن کے بلڈوزر اور اُن کی بھاری مشینیں صرف اُن کے لیے ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹوں سے برف میں دھنستے اور مدد کے لیے چیخ و پکار کرتے ہوئے بدقسمت سیاح بے یارومددگار موت کے منہ میں چلے جائیں گے اور کوئی انہیں بچانے کے لیے نہیں آئے گا۔
اپنی بہن اور چھ بچوں سمیت مری میں مدد کا انتظار کرتے ہوئے موت کے منہ میں جانے والے نوید اقبال کی 18 گھنٹے پر مشتمل چیخ و پکار نے ہمارے حکومتی‘ سیاسی‘ انتظامی اور معاشرتی ڈھانچے کی تباہی و بربادی کا کچا چٹھا کھول کر ہمارے منہ پر دے مارا ہے۔ نوید اقبال کے کزن طیب گوندل‘ جو اسلام آباد کے معروف صحافی ہیں‘ نے زاروقطار روتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ اُن کے کزن اپنی گاڑی میں مری گئے تھے۔ جمعہ کے روز شام چھ بجے نوید اقبال کی طیب گوندل کو کال آئی کہ ہم برف میں پھنس گئے ہیں اور یہاں سینکڑوں گاڑیاں گزشتہ 24 گھنٹے سے برف میں دھنسی ہوئی ہیں۔
اے ایس آئی نوید نے ساتھی پولیس افسر کو آخری وائس میسج میں کہا کہ ہم 18 گھنٹے سے پھنسے ہوئے ہیں۔ پتا کرکے بتائو کہ کرین کے لیے ہمیں مزید کتنے گھنٹے انتظار کرنا ہوگا۔ طیب گوندل نے بتایا کہ نوید سے میرا آخری رابطہ ہفتے کی صبح 4 بجے ہوا۔ طیب نے کہا: سی پی او ساجد کیانی سے بھی میری بات ہوئی۔ انہیں نوید کی ریکارڈنگ بھیجی مگر انہوں نے اُسے دیکھ کر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
اب بے حسی کے ایک ایک شاہکار کو دیکھتے جائیں اور حکومتی بدانتظامی کا ماتم کرتے جائیں۔ طیب گوندل نے کہا کہ میں نے ایس ایس پی ٹریفک سے رابطہ کیا‘ بطور صحافی وزیراعظم عمران خان‘ عثمان بزدار‘ شیخ رشید اور فواد چودھری کے ذاتی واٹس ایپ پر پیغامات ریکارڈ کرائے مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ میں نے انتظامیہ کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے لوگوں کی لائیو لوکیشن بھیجی مگر بند کواڑوں کو کھول کر کسی نے باہر جھانکنا بھی گوارہ نہ کیا۔ موت کی ہچکی لیتے ہوئے اور اپنے پیاروں کو وادیٔ موت میں اُترتے ہوئے دیکھ کر اے ایس آئی نوید اقبال کے آخری الفاظ یہ تھے :مجھے اندازہ نہ تھا کہ حکومت اتنی نااہل ہے۔
مری میں جس طرح سے 23 افراد اپنی گاڑیوں میں زندہ درگور ہوگئے اُس سے تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ محکمہ موسمیات نے 31 دسمبر سے لے کر5 جنوری تک خوفناک برفباری کے بارے میں تمام متعلقہ اداروں کو خبردار کر دیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ 6 سے 9 جنوری تک مری اور گلیات کی سڑکیں برفباری کے سبب بند ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان خبروں کے بعد بھی مری جی ٹی روڈ اور ایکسپریس وے سے جمعہ کے روز ایک لاکھ تیس ہزار گاڑیوں کو مری میں کیوں آنے دیا گیا؟
سابقہ دور میں برفباری کے سیزن سے بہت پہلے مری میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی زیر صدارت کم از کم آٹھ دس محکموں کے اعلیٰ ذمہ داران کے اجلاس منعقد کیے جاتے جن میں 9 صفحات پر مشتمل ایس اوپیز پر عملدرآمد کے لیے ڈیوٹیاں لگائی جاتیں۔ محکمہ ہائی ویز کے اعلیٰ افسروں کو ایک بار پھر یاددہانی کرائی جاتی کہ برف ہٹانے والی 30 مشینوں کی چیکنگ کی جائے گی اور آٹھ دس مقامات پر نمک پھیلانے اور برف ہٹانے والی ان مشینوں کی مستقل موجودگی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس بار وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ایسی کسی میٹنگ کا تکلف نہ کیا اور سیاحوں کے مطابق برف ہٹانے والی اِکا دُکا مشینیں ہی کام کرتی دکھائی دیں۔ مسلسل 24 گھنٹوں تک مری کے کسی مقام پر کوئی انتظامی عملہ نظر نہ آیا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب لاہور میں پارٹی کی تنظیم نو کے اجلاس میں شریک تھے اور انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے مری میں سیاحوں پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ مری کے ہوٹل مالکان نے ایک بار پھر بے حس اور حریص ہونے کا ثبوت دیا۔ زندہ بچ جانے والے سیاحوں کے مطابق عام کمرے کا ایک رات کا کرایہ پچیس سے پچاس ہزار تک طلب کیا گیا مگر انہیں پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔
جناب عمران خان گزشتہ 22 برس سے قوم کو بھاشن دیتے چلے آرہے ہیں کہ یہاں ٹورازم کا بڑا موقع ہے۔ ساڑھے تین برس سے وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں مگر انہوں نے سیاحت کے فروغ اور سیاحوں کے تحفظ کے لیے کسی طرح کے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ سردیوں میں جو حال مری کا ہوتا ہے وہی حال گرمیوں میں ناران اور کاغان کا ہوتا ہے۔ وہاں بھی بے خبر سیاحوں کو انتہائی بیدردی کے ساتھ لوٹا جاتا ہے۔
باٹم لائن تو یہ ہے کہ انتظامیہ‘ پولیس اور دیگر اہم اداروں کی مری میں موجودگی کے باوجود انتظامی بدنظمی کی بنا پر 23 قیمتی جانوں کو بچایا نہ جا سکا۔ ہم پس از مرگ واویلا کرنے والی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ جو بات معصوم عائزہ کی سمجھ میں آسکتی ہے وہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے والے حکمرانوں کی سمجھ میں کیوں نہ آسکی۔ مری سمیت ٹورازم کی منصوبہ بندی ہونی چاہئے اور مری کے انتظامات کے لیے فوری طور پر ایک خودمختار و بااختیار اتھارٹی قائم کی جانی چاہئے۔ فی الحال تو حکمرانوں کی بے پناہ غفلت کی بنا پر ملکۂ کوہسار مری وادیٔ موت کا روپ دھار کر ساری قوم کو سوگوار کر چکی ہے۔