آئی ایم ایف موجود، حکومت اور اپوزیشن غیرموجود!

یہ بات صداقتِ عامہ بھی ہو کہ آئی ایم ایف مہنگائی کا سبب ہے اور بلیک میل بھی کرتی ہے، ایسا تو ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے تاہم اس کے باوجود زرداری صاحب نے تنخواہیں بڑھائیں اور نواز شریف نے ترقیاتی کام بڑھائے۔ اِن مسائل اور بوجھ کے باوجود لیڈر شپ اسٹیٹس مین کا وتیرہ نہیں چھوڑتی، نہ لوگوں کے چولہے بجھنے دیتی ہے!

آئی ایم ایف لوگوں کی مدد بھی تو کرتا ہے، غریب ممبر ممالک (LICs) کو فنانس بھی کرتا ہے، لہٰذا مانیٹرنگ بھی کرے گا، اگر سونے کے ساتھ لنک کرکے لین دین کرتا ہے تو خواہشمندوں ہی سے، گن پوائنٹ پر تو نہیں کرتا۔ جہاں تک مدد کا معاملہ ہے ابھی 22دسمبر 2021کو اس نے کم آمدنی والے ممالک کیلئے ویکسین پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ ادویہ کی قیمتیں بلاوجہ بڑھا کر کہیں کہ ایسے اسمگلنگ روکنی ہے، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو بڑھا کر مال و زر ڈمپ کر بیٹھیں، چھوٹی صنعتیں بند ہو جائیں، فصلوں کا لہلہانا کم ہو جائے، چینی مافیا، کبھی گندم مافیا سر اٹھا لے، کھاد مافیا پنپنے لگے، پرائیویٹ اسپتال مافیا اور سرکاری ڈاکٹرز ایک ہو جائیں، یونیورسٹیوں کو معلوم نہ ہو کہ مقامی اہداف پورے کرنے ہیں، قومی یا بین الاقوامی، سوچیں اسٹیٹ بینک خود مختار نہیں حکومتی تابع فرمان ہے، سستی بجلی کی پیداوار کیلئےاقدامات نہ ہوں، ٹیکس کا بوجھ انہی پر بڑھاتے جائیں جن کا پہلے سے کچومر نکل رہا ہے، گرے لسٹ سے کم فہم لابنگ اور عاقبت نااندیش خارجہ پالیسی کے سبب نہ نکل پائیں، نیب آپ کی معیشت کے راستے میں دیوار ہو، عدلیہ تک کی کریڈیبلٹی بین الاقوامی سطح پر سوالیہ نشان ہو، قانون سازی کے برعکس آرڈی ننس کی بیساکھیوں پر چلتے ہوں، جمہوریت پر الگ دھبے ہوں اور سارا قصور آپ آئی ایم ایف پر ڈال دیں تو یہ کہاں کی صداقت؟

یہاں دو جھوٹ ہیں: (1) اپنی نااہلی چھپانے کیلئے قصوروار آئی ایم ایف کو بنا دینا۔ (2) مہنگائی کا سارا بوجھ لوئر مڈل کلاس پر ڈال دینا۔

ہمارے دو چہرے ہیں بلکہ پورے ایشیا کا ڈبل فیس ہے، ایک طرف ہر کوئی ایشین ٹائیگر ہونے کے دعوے کرے تو دوسری جانب اکنامکس ابھی ایمبریانک اسٹیج میں ہونے پر ہاتھ بھی پھیلائے، پاکستان کا المیہ یہ کہ ماہر معاشیات زر خرید ملا کی طرح حق میں فتوے دینے کیلئے ہر وقت تیار، ماہر معاشیات اگر ماہر سیاسیات بن بیٹھے تو ایسے ہی ہے جیسا کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔ ماہرِ معاشیات کا کام صرف سچ بولنا ہے، حد ہو گئی کہ وزیر خزانہ کہتے ہیں ’’محض 2ارب روپے کے اضافے سے کون سا مہنگائی کا طوفان آجائے گا‘‘۔ وزیر صاحب طوفان تو پہلے ہی، گرداب کا بھی شمار نہیں۔ آندھی ہو یا تلاطم خیز موجوں کی بڑھوتری، اس سے آپ کو تو فرق نہیں پڑتا مگر غریب آدمی پر مہنگائی ایک فیصد بڑھے، مافیا بوجھ گیارہ فیصد بڑھا دیتا ہے، اس کو بھی کنٹرول آئی ایم ایف نے آ کر کرنا ہے کیا؟

22نومبر 2021کو یہ سامنے آیا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو 1.059ارب ڈالر کی قسط جاری کر دی جائے گی گویا مجموعی رقم 3.027ارب ڈالر ہو جائے گی۔ اب یہ بھی راستہ کھل گیا کہ دیگر بین الاقوامی ادارے بھی فنڈ مہیا کریں گے۔ جولائی 2019میں 6ارب ڈالر کی ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسیلٹی (ای ایف ایف) کا معاہدہ ہوا تھا اور اس معاہدے کے تحت پاکستان کو 3سال سے زائد کے عرصے میں چھ ارب ڈالر کی رقم قسطوں میں ملنی تھی۔ حکومتی نااہلی اور گڈ گورننس کے فقدان کے سبب 2سال میں محض 2ارب ڈالر مل سکے یوں چھٹے نظر ثانی اجلاس کے بعد ایک ارب ڈالر کی رقم پاکستان کو ملے گی۔

سوچ کہتی ہے جانے وہ لوگ کیسے کہہ لیتے کہ جیل میں جانا میرے لیے ایسے ہی جیسے محبت میں گرفتار ہونا۔ فیض جیسا شاعر جس کی گھاٹ سے سہولتیں پانی بھرتی تھیں، وہ بھی یہی کہا کرتا تھا، نیلسن منڈیلا وغیرہ کی جانب کیا جانا مگر آج تو عالم یہ ہے کہ کپڑوں کا برانڈ نیچے جائے تو کھجلی، گاڑی ذرا کم آرام دہ ہو تو کمر درد۔ اب شعر و سخن والے نازک مزاج اور سیاست دان کی طبع نازک کا تو پوچھئے بھی ناں۔ انقلابی کہاں ڈھونڈتے ہو۔ سیاست اب ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر چلنے والی نہیں، یہ تو شیش محلوں کے عکس اور تاج محلوں کی ریشمی چاہتوں والی ہے، اس کی لگام اشرافیہ کی نزاکتوں اور نازنین کی پازیبوں سے جا جڑی ہے۔ سیاست پابندِ سلاسل سے کہیں دور کسی کھل جا سم سم کی دلدادہ جادوئی قوتوں کے اشاروں کی متلاشی ہو کر رہ گئی ہے۔ یہاں حکومت کیا اپوزیشن بھی نہیں جو انسانی حقوق کیلئے قربانی دے۔ سہولتوں کے موسم میں سوچنا انقلابوں کاکام ، ایسی کوئی رسم اور جذبے کبھی ہوتے ہوں گے، اب یہاں سیاست یا جمہوریت کے کعبے کو جبینوں سے بسانے والے دستیاب نہیں، بےشک چراغِ رخِ زیبا لے کر ڈھونڈنے کی سعی کر لیں! کوئی ایسی تمنا نہیں کہ انقلابوں اور تحریکوں کے پرانے راگ الاپوں، مقتدر ہر دور میں ہوتا تھا اور ہر کہیں لیکن اپنا ایجنڈا لے کر چلنے والے کبھی حُر ہو جاتے تو کبھی کربلائی۔ یہاں اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت کا ایجنڈا محض ظلِ سبحانی کو بچانا رہ گیا ہے اور ٹھیک ایسا ہی معاملہ حکومتی فرینچائزڈ ظلِ سبحانیوں کا ہے کیونکہ حکومتی ظلِ سبحانی کو روزِ اول سے بچاتا کوئی نظر نہیں آتا، ہر کوئی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کی فنکاری میں لگا ہے، اخلاص اور وفا کوسوں دور جاچکی۔ آخر ہر باغ کے چوہدری نثار علی خان بھی تھک جاتے ہیں لیکن گر کوئی نثار نیا پیڑ نہیں پاتا، تو تھوڑا رک کر سوچنا پڑتا ہے یہ مخدوم خسرو اینڈ ہم نواؤں اور بابر اعوان برانڈز سے تو مختلف ہے۔ ویسے یہ برانڈز بھی ہر جغرافیہ و تحریک میں ہمیشہ رہے ہیں، مسئلہ ان کا نہیں، مسئلہ ان جمہوریت پسندوں اور تحریکیوں کا ہے جو انسانی حقوق کی منزل والی شاہراہیں چھوڑ کر مقتدر کی اکڑ کا ساماں اور نظریہ ضرورت کے نگہباں ہو گئے۔

ستم یہ ہے کہ حکومت ہی نہیں اپوزیشن بھی نااہل اور لاپروا ہے، کوئی مہنگائی یا آسیب کے سائے ختم نہیں کرنا چاہتا، سبھی باری اور کھل جا سم سم کے منتظر ہیں، ورنہ عوام مخالف قانون سازیوں کا آغاز ہی جنم نہ لے، کیا منی بجٹ کا سوال اور کیا آرڈی نینسوں کے جلوے۔ خوفناک خود ہو اور ڈراتے آئی ایم ایف سے ہو۔ جہاں اپوزیشن نامعتبر ہو اور حکومت غیرمؤثر وہاں آئی ایم ایف نہ گونجے، تو کون گونجے؟

sOURCE JANG 

بشکریہ روزنامہ آج