136

جھوٹ پر لیکچرارز کے احتجاج کی اخلاقی بنیاد کیا ہے؟

جب نئی نسل کو علم کی روشنی دینے کا دعویٰ کرنے والے جھوٹ کی بنیاد پر احتجاج کی بنیاد رکھیں تو کیا کوئی اخلاقی جواز باقی رہ جاتا ہے؟پریس کلب لیہ کے سامنے جتنے لیکچرارز نے احتجاج کیا وہ ایک جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا مجھے یہ بات وزیر اعظم پاکستان کے گوش گزار کرنا ہے کہ جب سے تعلیم کی بنیادیں رکھنے والے افراد کی یونینیں وجود میں آئی ہیں تعلیم کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے یہ نام نہاد تنظیمیں جب چاہیں کسی بھی منتظم کو بلیک میل کرکے اس سے ناجائز مطالبہ منوالیں گورنمنٹ گریجوایٹ کالج میں کیا نہیں ایک طالب علم کو نہ صرف ایک شخص نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اپنے غنڈوں کے ذریعے اگر تشدد کی مزید کوئی کسر تھی تو وہ بھی پوری کر لی جس کی بنا پر وہ بے ہوش ہو کر گھر پہنچا اگر یہ جھوٹ ہے تو کالج کے سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے اصل حقائق کا پتہ چلایا جاسکتا تھا مگر اک طویل عرصے سے اپنے کارکردگی پر پردہ ڈالنے کیلئے کیمروں کا وجود ہی نہیں یعنی وہ کام ہی نہیں کر رہے اب جب پولیس نے کاغذوں سے گرد جھاڑنے کیلئے ایک ناقص ایف آئی آر کا اندراج کیا ہے تو اپنے دست راست کو بچانے کیلئے لیہ کے لیکچرارز کو جھوٹی سچی کہانی سنا کر رام کر لیا گیا ہے اور ان کو بھی احتجاج کی راہ پر لگا لیا گیا 
حالانکہ گورنمنٹ کالج جسے لیہ ضلع بھر میں ایک مثالی تعلیمی ادارے کے نام سے جانا جاتا ہے ایک عرصہ سے مختلف النوع سکینڈلز کی زد میں ہے ایک بڑے تعلیمی ادارے کی ساکھ پر جان بوجھ کر یہ دھبہ لگایا گیا کہ کرپشن کے بعد اب ایک پروفیسرانور نذیر علوی کے ہاتھوں لیہ شہر کے ایک ایسے طالبعلم جس کو کالج میں گیارھویں میں داخل ہوئے محض 14روز ہوئے تھے کہ پروفیسرنذیر علوی اور اس کے لے پالک غنڈوں کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کا ایسا نشانہ بنا کہ اب خوف سے وہ گھر سے نہیں نکلتا لیہ شہر کے ایک شہری وسیم قریشی کے بیٹے حرمین عبداللہ کی خواہش تھی کہ وہ لیہ کے مثالی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے جب وہ کالج میں داخل ہوا تو اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس کے پاس ایک موبائل تھا بس یہی موبائل اس کا جرم بن گیا انور نذیر جو معلم کے نام پر ایک گالی ہے نے پہلے کرکٹ کی ایک وکٹ اس کے جسم پر توڑی جب اس سے بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اپنے غنڈوں سے اسے ٹھڈو ں اور مکوں گھونسوں سے پٹوایا یہی نہیں اس کا اور اس کے ایک کزن کا موبائل بھی اپنی کسٹڈی میں لے لیا والدین کو جب خبر ملی تو بچہ بے ہوش ہو چکا تھا جسے بے ہوشی کی حالت میں والدین اپنے گھر لے کر گئے پروفیسر انور نذیر نے کئی روز سے یہ موبائل اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جبکہ بچے کے والدین نے تھانہ سٹی میں پرچہ کے اندراج کیلئے درخواست دے رکھی تھی لیکن سٹی تھانہ کے سب انسپکٹر ارسلان نے نہ صرف بچے کے والدین اور لواحقین کو کو برا بھلا کہا اور صلح کیلئے دباؤ ڈالا بلکہ ایف آئی آر کے اندراج تک سے گریز کیا پھر  والدین نے انصاف کیلئے عدالت سے بھی رجوع کیا  جبکہ ڈائریکٹر کالجز شیخ فیاض نے ہنگامی بنیادوں پر ایکشن لیتے ہوئے اس معاملہ کی حساسیت کا ادراک کیا یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ایک طالب علم کے ذہن پر جو نفسیاتی خوف طاری کیا گیا اس کا مجرم کون ہے؟
پاکستان میں بچوں کو سزا دے کر پڑھاناایسے افراد اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اسکولوں میں کارپورل پنشمنٹ یا جسمانی سزا کے خلاف پاکستان میں کی جانے والی قانون سازی کس حد تک کامیاب ہے۔اس کیلئے لیہ میں ہونے والے اس واقعہ کو ہی مثال بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے کہ کئی روز گزر جانے کے باوجود سٹی پولیس لیہ نے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی اب جبکہ اس کے خلاف ایک ناقص اور کمزور ایف آئی آر کا اندراج ہوا ہے تو اس کی گرفتاری میں خلل ڈالنے کیلئے پروفیسرز نے احتجاج شروع کر دیا ہے یہ ایسے ہی کہ جیسے چور بھی کہے چور چور  
پاکستان میں حکومتی سطح پرتعلیمی اداروں  میں بچوں کو جسمانی سزا دینے کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے سال2014 میں باقاعدہ طور پر قانون سازی کی گئی تھی۔ اس کے مطابق ملک بھر میں تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں بچوں کے لیے کسی بھی قسم کی سزا اور ان پر تشدد کی ممانعت کی گئی تھی۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے جرمانے کے علاوہ قید کی سزا کا بھی تعین کیا گیا ہے۔اب ا ساتذہ کا وہ کردار بھی نہیں رہا جو ماضی میں تھا وہ کسی بھی بات پر اپنی جھوٹی انا کو تسکین پہنچانے کیلئے بچے پر تشدد کیلئے کہیں بھی جاسکتا ہے اب اساتذہ کے ذاتی نوعیت کے کام اگر کوئی طالبعلم نہیں کرپاتا تو بھی اس کی درگت بنتی ہے اساتذہ اب ایمانداری سے بھی نہیں پڑھاتے بس تنخواہیں وصولنے کیلئے گپیں ہانک کر وقت ضائع کرتے ہیں شہری تنظیمیں بھی اس ظلم کی مذمت کر رہی ہیں اور شہریوں کی کثیر تعداد کا موقف ہے کہ آج وسیم قریشی کا بیٹا تشدد کا نشانہ بنا ہے کل ہمارے بچوں کی باری بھی آسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ معاملہ کی نوعیت اتنی گھمبھیر ہوچکی ہے کہ انور نذیر نے اپنے جرم  کو تسلیم کرلیا ہے اور معافی کا طلبگار ہے جس کیلئے وہ مقامی ممبر اسمبلی کے ڈیرہ کا طواف کررہا ہے اتنے بڑے ظلم پر دکھ اس بات کا ہے کہ کالج ہذا کے پروفیسرز کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی سربراہ داراہ تک خاموش تماشائی بنا ہوا ہے بلکہ انہوں نے جو یونین بنا رکھی ہے اس سے ناجائز قراردادیں پاس کرارہے ہیں اس دوران حرمین عبداللہ کی والدہ کے دل پر کیا گزر رہی ہے اس کا اندازہ ایک ماں ہی کرسکتی ہے بچے کے والدین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہمارا موبائل ڈیٹا بھی چوری ہوسکتا ہے جس کیلئے ہم سائبر کرائم ونگ سے رجوع کرنے کیلئے جارہے ہیں جبکہ بچے کے والدین کا موقف ہے کہ ہم بھی انجمن تاجران کے پلیٹ فارم سے احتجاج کی راہ اپنانے والے ہیں

بشکریہ اردو کالمز