جمہوریت اور ریاست مدینہ 

یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ پاکستان میں آئندہ سو سال تک کوئی بھی تبدیلی ممکن نہیں۔ اس کی   اک   بنیادی   وجہ   ہے کہ  یہاں  پر  ریاست  مدینہ کی نسبت   سے  جب  انسانی  فلاح  اور  ترقی  کی  بات   کی  جاتی  ہے  تو  اس  پر نہایت بے شرمی  سے قہقہے  لگائے   جاتے  ہیں  کیونکہ  یہ دعوی  کرنے  والے  کسی  اسلامی  جماعت  سے  تعلق  نہیں  رکھتے۔یہ خطہ فکری پسماندگی کی جن موجوں کو پہنچ چکا ہے اس کو ارتقاء نہیں کہا جاسکتا۔ یہ ایک ایسا زوال ہے جہاں انسانی جذبات مخصوص انتہا پسند نظریات کی پیروی کرتے ہیں۔ جہاں پیٹ کی بھوک سے بڑھ کر مذہب کی لڑائی زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے۔ کچھ اہل خیال کے نزدیک پاکستان کا نظریاتی طور پر ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کہلایا جانا صریحاََََ مذاق ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ایسا ملک جو اسلامی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا، اس کی سب سے زیادہ مخالفت مسلمانوں بالخصوص ملّا نے ہی کی۔ پھر یہاں پر آئین بھی تمام مکاتیب فکر کے علما نے ہی ترتیب دیا مگر اس پر عملدرآمد کروانے والوں کی اکثریت اسلامی اساسیت سے واقف بھی نہیں۔ جی ہاں یہ اک ایسا ملک ہے جس کو سود جیسے نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے جو شریعت کی رو سے الله کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ یہاں پر عزت بازاروں میں بکتی ہے اور ہر جگہ ایمان بیچا جاتا ہے۔ یہاں پر ہر معاشرتی برائی ملک کے کونے کونے میں دکھائی دیتی ہے۔ ریپ، بھتہ خوری، سود، ڈاکہ زنی، رشوت، جھوٹ، ملاوٹ، سفارش، ذخیرہ اندوزی، دشنام طرازی الغرض ہر طرح  کی  برائی   ہمارے  معاشرے  میں  پائی  جاتی ہے۔ 

جہاں تک بات ہے جمہوریت کی یہ بات بھی واضع ہے کہ یہاں پر عوام بھیڑ بکریوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ عوام اپنے حقوق و فرائض سے بالکل بے خبر ہیں۔ پھر جمہوریت کے شور میں عوام کی مرضی کہاں گئی۔ یہاں   پر  عوام   ہمیشہ  استحصال  زدہ  ہی  رہے  ہیں  فرق صرف  یہی  ہے کہ تاریخ  نے کبھی آمروں کو  اقتدار بخشا   توکبھی  بنیادی  جمہوریت  کا  نظام  قائم  ہوا   اورکبھی  عوامی جمہوریت  کا  مگر عوامی  فلاح  کا  کوئی  نظام  یہاں  قائم  نہیں  ہوا  ،   نہ  ہی  یہاں کبھی  ووٹ  کو  عزت  ملی   اور  سب  سے   بڑا  المیہ  یہ  رہا  ہے  کہ  یہ  تمام  خرابیاں  ملّائیت  یافتہ  رہی  ہیں۔  اس طرح  تو  صرف  پاکستان  ہی  بچتا  ہے کیونکہ اسلام اور جمہوریت  دونوں  ہی  غائب  نظر  آتے  ہیں۔ 

یہ بات بڑے تفاخر سے ہمارے  میڈیا پر کہی جاتی ہے کہ بھارت جیسا سیکولرازم کا دعویدار ملک مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہے جب کہ پاکستان اک پر امن معاشرہ رکھتا ہے۔ چلیں بلا مبالغہ تسلیم کر لیں کہ پاکستان مذہبی طور پر انتہا پسند ملک نہیں مگر کیا پاکستان معاشرتی طور پر اک ترقی یافتہ ملک ہے؟ اس سوال کا جواب اسلام کے ترجمانوں سے ہی لیا جائے تو بہتر ہے۔ بتایا جائے کہ سپیکر کے سہارے جب فرقوں کی تبلیغ ہو گی تو وہاں اسلام کہاں جائے گا۔ پھر جب سپیکر پر پابندی لگتی ہے تو حکومت بے دین ہو جاتی ہے۔ عوام ہی کو سڑکوں پر لا کر عوام کے نمائندوں کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے۔ یعنی  جمہوریت کی رو سے پھر عوام ہی بے دین ہو گئے۔ 

برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس معاشرے  میں سب سے نمایاں چیز غلامی نظر آئے گی۔ یہاں پر انسانی ترقی کو کبھی اہم نہیں سمجھا گیا۔ انسانی فکر ہمیشہ کو مفلوج رکھا گیا۔ یہاں بادشاہت اور سامراج کی طویل تاریخ یہی بتاتی ہے کہ یہاں کے بادشاہوں اور حکمرانوں کو انسانی فلاح میں کوئی دلچسپی نہ تھی بلکہ بڑی بڑی ریاستوں پر حکمرانی کرنا، مزید ریاستوں پر قبضہ کرنا، آپسی سازشیں اور محض تعمیرات پر ہی اکتفا تھا۔ یہاں پر فنون لطیفہ، تصوف اور سخن کو پذیرائی تو حاصل تھی مگر اسکا تعلق محض دربار سے ہی تھا۔ یہاں پر ملاوں کو بھی خاص اہمیت حاصل تھی جس کا مقصد اسلامی  جذبات   کی  ایما  پرمحض عوامی حمایت کا حصول تھا۔

اگر برصغیر میں بھی فکری آزادی ہوتی، یہاں پر تعلیم اور فنون لطیفہ پر کام کیا گیا ہوتا تو صورتحال آج سے مختلف ہوتی۔ کثیر الآباد یہ خطہ آج مذہبی انتہا پسندی کی جس نہج کو پہنچ چکا ہے اس میں عوام کو انتہاپسند قرار دینا درست نہیں۔ جب اساسیت کمزور ہو اور جب حکمراں طبقہ ذاتی مفادات کی خاطر عوامی جذبات کا استحصال کرے گا اور ملّائی جمہوریت کا دور دورہ ہوگا تب کہاں سے فلاحی ریاست کا وجود ممکن ہو سکے گا۔

ریاست مدینہ کے دعویدار اور ان پر تنقید کرنے والے انقلاب محمدیؐ اور ریاست مدینہ کا خاکہ تو ملاحظہ فرمائیں۔

ممتاز مذہبی سکالر سید جنید غزنوی نے اپنے مختلف بیانات میں اس انقلاب کا خاکہ بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے برپا ہوا تھا۔ وہ بیان کرتے  ہیں کہ ایسا ہمہ گیر انقلاب تاریخ میں آج تک برپا نہیں ہوا۔ بعض انقلاب معاشی تھے، بعض مذہبی اور بعض سیاسی تھے۔ دنیا میں جو انقلاب آتے ہیں اک طبقے کو دوسرے طبقے سے لڑا دیا جاتا ہے، مزدور کو صنعتکار کے خلاف، کسان کو جاگیردار کے خلاف اور غریب کو امیر کے خلاف لڑا دیا جاتا ہے مگر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حضور اکرم ؐنے ایسا نہیں کیا۔ وہ اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز تھےانہوں نے سب سے پہلے معاشرے میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کیا۔ مساوات کا درس دیا۔ عرب کے جہل کو بہترین انسانی رتبے پر فائز کیا۔ کارکنوں کی تربیت اس انداز سے کی کہ ان کے جذبہ ایمانی پر شک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے تفرقات کو ختم کرکے معاشرے کے منتشر پہلووں کو یکجا کر دیا اور اتحاد امت کی اعلی مثال قائم کی۔ عدل و انصاف کے رہنما اصول مرتب کئے۔ تب جا کے اسلامی فلاحی ریاست کا وجود ممکن ہو سکا۔ جہاں خلیفہ اور گورنر حقیقی معنوں میں عوام کو جوابدہ تھا جو واقعی  حقیقی جمہوریت تھی جس میں عوام اپنے حقوق و فرائض پر بخوبی عمل پیرا تھے، سزا میں کمی کی گنجائش نہ تھی مگر رحم کے معاملات میں حضورؐ جیسا ظرف کسی کا  نہ تھا۔ یہی بات انہوں نے اپنے پیروکاروں کو سکھائی۔ حقوق العباد میں تقوی کا معیار بہت   ہی بلند تھا۔

یہی وہ ماڈل تھا جس کو مسلمان خلفاء اور امراء نے دنیا کی جدید تہذیبوں میں نفوذ کیا۔ اسی لئے تو یورپ جیسے معاشرے میں انسانی اخلاق کے منفرد پہلووں کو دیکھ کر وہاں اسلامی نظام کی موجودگی کا احساس ملتا ہے۔ ہمارے  ہاں  اسی عملی  نمونے  کو  اپنانے  کی  ضرورت ہے۔ یہی  بات  ہمارے  حکمرانوں،  علماء  اور  ملّائیت  کے  پروانوں کو سمجھنے  کی  ضرورت  ہے  کہ  جب  تک  ریاست  مدینہ  کے حقیقی  تصور کو  نافذ کر  کے  انسانی   اصلاح اور فکر کو مستحکم نہیں  کیا  جاتا  تب  تک  نہ  کوئی  فلاحی  ریاست  قائم  ہو سکتی  ہے  اور  نہ  ہی  اسلامی  نظام  قائم  کیا  جا سکتا  ہے۔سب  سے قبل  اک  اچھا  انسانی  معاشرہ قائم  کرنے  کی  ضرورت  ہے  جس  کو  قابل ِ  رشک تبدیلی  قرار  دیا  جا سکتا  ہے۔  

بشکریہ روزنامہ آج