296

"سیاسی چالیں، ایوانوں کے احوال اور تحریک لبیک"


مملکت خداداد کے سیاسی منظر نامے میں گزشتہ چند مہینوں سے کافی "گردش" دکھائی دے رہی ہے۔ اکتوبر کے اواخر میں "کالعدم تحریک لبیک" نے چھٹا دھرنا دیا اور ہر بار کی طرح اس بار بھی حکومت وقت کی بجائے "بڑے گھر والوں" نے "معاملات" کو نمٹایا۔ حکومتی ایوانوں میں رکھے گئے "بتوں" کی شاید اب وہ ضرورت نہیں رہی جو 2018ء میں تھی اور مزید برآں، "بت تراشنے والوں" کو یہ گوارا بھی نہیں کہ ان کے اپنے ہی ہاتھوں تراشے گئے "بتوں" میں "جان" آ جائے۔

دوسری جانب حکومتی ایوانوں میں بھی "موسم" کافی گرم دکھائی دے رہا ہے۔ کبھی وزارتوں کی تبدیلیاں، کبھی حزب اختلاف کے ساتھ "یکطرفہ" اور "دو طرفہ" محبت کے قصے، کبھی وزراء کی "دغا بازیاں"، تو کبھی اپنے "سرپرستوں" کے ساتھ فوجی تقرریوں پر اختلاف، ایسا لگتا ہے کہ حالات پھر سے ایک نئی "تبدیلی" کی طرف جا رہے ہیں۔ کچھ غیر جانبدار حلقوں کی جانب سے ایسا قیاس بھی کیا جا رہا ہے "لانے والوں" کا دل اب "لائے گئے" سے بھر گیا ہے، لہذا ملک کا موجودہ "منظر نامہ" آنے والے وقت میں کسی بڑی "تبدیلی" کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ویسے تو موجودہ حکومتی سیٹ اپ بھی ایک "تبدیلی" ہی کا "شاخسانہ" ہے لیکن لگتا ہے کہ اب کی بار جو "تبدیلی" آئے گی، وہ کافی "مختلف" ہو گی۔

گزشتہ دنوں "ریاست مدینہ کے نام نہاد دعویداروں" اور "کالعدم تحریک لبیک" کے مابین ایک معاہدہ طے پایا ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ یہ دس نکاتی معاہدہ ہے اور اسے "خفیہ" رکھا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ "بڑے گھر والے" پھر سے کچھ "بڑا" کرنے جا رہے ہیں۔ معاہدے کے شرائط کیا کیا ہیں، یہ تو تبھی معلوم ہو گا جب معاہدے کو منظر عام پر لایا جائے گا لیکن اب تک موصول شدہ تفصیلات کے مطابق جب مذاکرات شروع ہوئے تو "تحریک لبیک" کی جاب سے تین بڑی شرائط پیش کی گئیں۔ اول، "تحریک لبیک" کے نام سے لفظ "کالعدم" ہٹایا جائے۔ دوم، "تحریک لبیک" کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی سمیت باقی بڑے سربراہوں کے خلاف درج شدہ مقدمات ختم کیئے جائیں اور سوم، حافظ سعد حسین رضوی کو رہا کیا جائے۔ حکومت نے یہ تینوں بڑے مطالبات مان لیئے اور تینوں پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ "تحریک لبیک" کے نام کے ساتھ جو لفظ "کالعدم" جوڑا گیا تھا، وہ ہٹا دیا گیا ہے۔ مزید برآں، وزارت داخلہ پنجاب (راولپنڈی ڈویژن) کی جانب سے "تحریک لبیک" کے موجودہ سربراہ حافظ سعد حسین رضوی سمیت 54 ممبران کے نام "اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997" کے "فورتھ شیڈول" سے ہٹا دیئے گئے ہیں اور جمعرات 18 نومبر، 2021ء کی شام حافظ سعد حسین رضوی کو بھی دیا گیا ہے۔

بظاہر تو یہ معاہدہ حکومت وقت کی جانب سے کیا گیا ہے لیکن پوری دنیا جانتی ہے کہ پس پردہ اصل "فریق دوم" کون ہے۔ مزید برآں، نااہل حکومت کی جانب سے اس معاہدے کا فیصلہ بھی ماضی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے تاخیر سے اس وقت کیا گیا جب "تحریک لبیک" کے مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں کے نتیجے میں پانچ پولیس اہلکار جام شہادت نوش کر گئے اور لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، وزیر آباد سمیت پنجاب کے آدھے درجن صنعتی شہروں میں زندگی معطل ہو گئی۔ سکول اور کالج بند کر دیئے گئے۔ سڑکیں بدستور بند رہنے کی وجہ سے سینکڑوں مریض ہسپتال نہیں پہنچ پائے۔ دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی آنے والی سڑکوں کو بند کرنے اور کاروبار متاثر ہونے کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہوا تو تب جا کر اس نااہل حکومت کی آنکھ کھلی ورنہ تو وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور وفاقی وزیر برائے انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ فواد چوہدری میڈیا پر روزانہ آ کر دھمکی آمیز بیانات داغ رہے تھے۔ اب کی بار تو انہوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ "تحریک لبیک" کو انڈیا سے فنڈنگ ہو رہی ہے کیونکہ پاکستان میں یہی روایت ہے کہ اگر آپ طاقتور سے انصاف مانگیں گے تو آپ غدار ہیں۔

معاہدے سے پہلے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد "تحریک لبیک" دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کرتے رہے لیکن بات نہیں بنی۔ 24 اکتوبر، 2021ء بروز اتوار انہوں نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں لیکن امید ہے کہ بدھ تک مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس دوران پولیس اور "تحریک لبیک" دھرنے کے شرکاء کے مابین جھڑپیں ہوتی رہیں اور دھرنے کے شرکاء آگے بڑھتے رہے۔ پھر اچانک سے حکومت نے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی۔

مذاکرات شروع ہوئے تو "تحریک لبیک" کی طرف سے یہ شرط رکھی گئی کہ وفاقی وزیر برائے انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ فواد چوہدری اور مولانا طاہر اشرفی کو مذاکرات میں شامل نہیں کیا جائے۔ حکومت نے یہ شرط مان لی۔ کراچی سے مفتی منیب الرحمن اور "سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ" کے مولانا بشیر احمد فاروقی بھی مذاکرات کیلئے پہنچ گئے۔ مفتی منیب الرحمن کی فرمائش تھی کہ مذاکراتی عمل میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیرزادہ نورالحق قادری کو شامل نہیں کیا جائے گا، لہذا ان دونوں حضرات کو بھی نکال دیا گیا اور پھر مذاکرات شروع ہوئے۔

قارئین کرام، اس معاہدے کے دو مضحکہ خیز پہلو ہیں، جنہیں دیکھ کر ہنسی تو آتی ہی ہے لیکن افسوس بھی بہت ہوتا ہے۔ اول، یہ معاہدہ حکومت کی مرضی سے ہونا چاہیئے تھا لیکن افسوس کہ یہ بھی پچھلے معاہدوں کی طرح "اصل لوگوں" کی مرضی سے ہوا۔ دوم، اس معاہدے کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اصول کے مطابق حکومت کی مذاکراتی ٹیم متعلقہ وزراء یعنی وزیر قانون، وزیر داخلہ، وزیر مذہبی امور وغیرہ پر مشتمل ہونی چاہیئے تھی، لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس ٹیم میں وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان شامل تھے، حالانکہ یہ تینوں لوگ اس معاہدے کے حوالے سے مکمل طور پر غیر متعلقہ ہیں۔ خصوصاً وفاقی وزیر خارجہ کا کام بیرون دنیا میں جا کر اس طرح کے معاملات سے لاتعلقی کا اظہار کرنا اور کالعدم تنظیموں کے خلاف آواز اٹھا کر اپنے ملک کا امیج بہتر کرنا ہوتا ہے، لیکن یہاں پر معاملہ بلکل برعکس نکلا اور ہمارے وزیر خارجہ صاحب ایک کالعدم تنظیم کے ساتھ مذاکرات میں بطور فریق شریک ہوئے اور یہ منظر پوری دنیا نے دیکھا۔

یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ معاہدہ تو ہو گیا لیکن کیا موجودہ حکومت اس معاہدے کی پاسداری کر پائے گی ؟ یہ سوال میرے دماغ پر بار بار دستک دے رہا ہے کیونکہ "تحریک لبیک" کے ساتھ اس حکومت کا یہ پہلا معاہدہ نہیں ہے۔ 16 نومبر 2020ء کو بھی اسی حکومت کے اس وقت کے وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور وزیر مذہبی امور پیرزادہ نورالحق قادری نے "تحریک لبیک" کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیئے تھے، جس میں تین وعدے کیئے گئے تھے۔ اول، حکومت فرانسیسی سفیر کو پارلیمنٹ کے ذریعے تین ماہ کے اندر اندر ملک بدر کر دے گی۔ دوم، پاکستان اپنا سفیر فرانس میں تعینات نہیں کرے گا اور سوم، فرانسیسی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائیگا، لیکن چونکہ ہمارے محترم وزیراعظم جناب عمران خان صاحب "یو ٹرن" لینے کے "ماہر" ہیں، لہذا اس معاہدے پر کبھی بھی عمل درآمد نہ ہو سکا، جس کے نتیجے میں "تحریک لبیک" ایک بار پھر 2021ء کے اوائل میں سڑکوں پر نکل آئی اور کئی روز تک شہروں اور سڑکوں کو بند کئے رکھا۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے گھبراہٹ کے عالم میں "یو ٹرن والی حکومت" نے "تحریک لبیک" کے ساتھ جلد بازی میں ایک اور معاہدہ کرلیا، جس میں وعدہ کیا گیا کہ فرانس کے سفیر کی بے دخلی کا معاملہ 20 اپریل، 2021ء تک پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ یہ وعدہ پورا ہوا اور سفیر کی بے دخلی کے معاملے کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اسے پارلیمانی کمیٹی کو بھی بھیج دیا گیا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ ۔معاملہ لٹکا رہا جس کے باعث "تحریک لبیک" نے ایک بار پھر اپریل، 2021ء میں لاہور بند کر دیا اور اسی موقع پر "تحریک لبیک" کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کو 12 اپریل، 2021ء کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان تمام حالات کو مدنظر رکھا جائے تو اب کی بار ہوا معاہدہ بھی مجھے پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ باقی فیصلہ آنے والا وقت کر دے گا۔

اگر اس معاہدے کو خفیہ رکھنے کی بات کی جائے تو ملک کے تمام سیاسی اکابرین کو بخوبی اندازہ ہے کہ یہ معاہدہ منظر عام پر کیوں نہیں لایا گیا۔ اگر "تحریک لبیک" کو سیاسی دھارے میں لانا ہے تو یہ بات چھپانے کی کیا ضرورت ہے ؟ کھل کر کہیں، چھپانے کی اس میں کیا بات ہے ؟ جس طرح سے حکومت "تحریک لبیک" کے ساتھ "تعاون" کر رہی ہے، اس سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ "فیصلہ کرنے والوں" کی جانب سے "تحریک لبیک" کو پنجاب کی نئی سیاسی جماعت بنانے کا "عندیہ" دیا جا چکا ہے۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ اول تو اس نااہل حکومت کی "تحریک لبیک" کے دھرنوں سے جان چھوٹے گی۔ دوئم، ہمیشہ کی طرح پھر سے پاکستانی سیاست میں "مذہبی کارڈ" کھیلا جائے گا اور پنجاب میں "نون لیگ" کا ووٹ بنک متاثر کرنے اور پوزیشن کمزور کرنے کیلئے "تحریک لبیک" کو استعمال کیا جائے گا۔

سیاست میں "مذہبی کارڈ" کے استعمال کی داغ بیل مہاتما گاندھی نے ڈالی تھی۔ 1920ء کے اوائل میں سلطنت عثمانیہ کے تحفظ کیلئے مولانا محمد علی جوہر نے "خلافت تحریک" کا آغاز کیا۔ معاملہ چونکہ اسلام اور خلافت کے تحفط کا تھا، لہذا برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے اس تحریک میں بھرپور شمولیت اختیار کی۔ مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے ہندوؤں کے رہنما مہاتما گاندھی نے اس تحریک کی حمایت کا اعلان کر دیا اور اس میں شرکت کی۔ یہیں سے "مذہبی کارڈ " کھیلنے کی ابتداء ہوئی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح اس وقت کانگریس میں تھے۔ انہوں نے اس تحریک کی حمایت نہیں کی کیونکہ ایک زیرک سیاستدان ہونے کے ناطے انہیں معلوم تھا کہ "مذہبی کارڈ" کا استعمال ملک اور قوم دونوں کیلئے خطرناک ثابت ہوگا۔ قائداعظم کی "خلافت بچاؤ تحریک" میں شرکت نہ کرنے کے معاملے پر مولانا محمد علی جوہر کے بھائی مولانا شوکت علی سے تلخ کلامی بھی ہوئی تھی، جس کے بعد قائداعظم نے کانگریس کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ یہ ہمارے قائد کی اعلیٰ ظرفی اور دور اندیشی تھی کہ اپنے قریبی دوستوں کو ناراض کرنا گوارا کر لیا لیکن اپنے ذاتی مفاد کیلئے مذہب کو استعمال کرنے سے گریز کیا۔

آج نہ تو قائداعظم محمد علی جناح جیسے اعلیٰ ظرف اور دور اندیش سیاستدان ہیں اور نہ ہی وہ اصولوں کی سیاست زندہ ہے، جس کی بدولت اللہ رب العزت نے ہمیں ہمارے پیارے وطن پاکستان سے نوازا۔ "تحریک لبیک" کو استعمال کر کے موجودہ حکومت اور "بڑے گھر والے" شاید کچھ سیاسی مقاصد تو حاصل کر لیں لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی "مذہبی کارڈ " کے استعمال کے نتائج بھیانک ہونگے۔ اللہ رب العزت پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔


 

بشکریہ اردو کالمز