ورلڈ کپ ہو تو موقع موقع کانوں میں گونجنے لگتا ہے ، آئ سی سی کی جانب سے دو ورلڈ کپس منعقد ہوتے ہیں ایک ٹیٹوئنٹی ورلڈ کپ اور دوسرا پچاس اوورز کا ورلڈ کپ ۔ دونوں ورلڈ کپس میں مجموعی طور پر پاک بھارت بارہ دفعہ آمنے سامنے آئے اوربارہ کے بارہ میچز پاکستان ہار گیا اور یوں بھارتیوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ ہر ورلڈ کپ میں پاکستان کا مزاق اڑائیں اور موقع موقعگائیں ۔ آخر ہم نے انہیں یہ موقع دیا ہی کیوں ؟ ہر بار کہا جاتا ہے کہ پاک بھارت ٹاکرا ہائ وولٹیج ٹاکرا ہوتا ہے ، دونوں ٹیموں پر۔ ےانتہا دباؤ ہوتا ہے مگر نتائج سے تو نہیں لگتا کہ بھارت پر کوئ دباؤ ہوتا ہو ۔ سارا دباؤ شاید پاکستان کی ٹیم اپنے اوپر ہی لے لیتی ہےاور ٹیم کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں ۔ پچھلے چودہ پندرہ سالوں سے تو ہم یہی دیکھتے آرہے ہیں کہ انڈین کرکٹ بورڈ اپنی حکومت کےپریشر میں آکر پاکستان کو گھاس بھی نہیں ڈالتا مگر دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کا بس نہیں چلتا کہ انڈیا سے ایک سیریزکھیلنے کے لئے انکے تلوے بھی چاٹ لیں ، ہر چیئر مین بس انڈین کرکٹ بورڈ اے بھیک مانگتا ہی نظر آتا ہے ۔ کیونکہ انہیں پتہ ہے کہاگر انڈیا سے سیریز ہوگئ تو کروڑوں کا فائدہ ہے تو کیا یہ فائدہ انڈین کرکٹ بورڈ کو نہیں ہوگا ؟
آئ پی ایل کے دوسرے ایڈیشن میں سولہ پاکستانی کھلاڑیوں کے نام گئے تھے نیلامی کے لئے مگر انتہائ مکروہ اور سوچی سمجھیسازش کے تحت ایک بھی پاکستانی کھلاڑی کی بولی کسی بھی فرنچائز نے نہیں لگائ تھی ۔ تو کیا یہ بات پاکستان کرکٹ بورڈ کیسمجھ نہیں آئ تھی کہ انہیں زلیل کیا گیا ہے ؟ اور اس وقت موقع تھا کہ آپ انڈین کرکٹ بورڈ سے تعلقات قطع کرتے مگر ہوا بالکل اُلٹکہ انڈین بورڈ زلیل کرتا رہا اور کررہا ہے اور آپ ہیں کہ تلوے چاٹنے میں ہی لگے ہوئے ہیں ،
پاکستان کی ہر گورنمنٹ چاہے وہ نواز شریف کی ہو یا زرداری کی ، پرویز مشرف کی ہو یا عمران خان کی وہ سب سے پہلے آتے ہیپاکستان کرکٹ بورڈ کا چئیر میں اپنا نامزد کرتی ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ سب سے زیادہ مال یہیں ہے ، مگر خدا کے واسطے پیسےکے کئے اپنی عزت تو داؤ پر نہ لگایا کریں کہ جو آتا ہے وہ آتے ہی انڈین کرکٹ بورڈ کے آگے جھکنا شروع کردیتا ہے ،
کرکٹرز دُنیا بھر میں لیگز کھیل کر اپنی تجوریاں ویسے ہی بھر رہے ہیں اور آئ سی سی کی جانب سے کرکٹ بورڈ کو کروڑوں ڈالرز ہرسال فنڈنگز میں ملتے ہیں اور سال میں پانچ چھ سیریز سےمنافع الگ ، تو پھر ازلی دُشمن کے آگے ہاتھ جوڑنا چہ معنی ؟
چوبیس اکتوبر کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کا پہلا ہی میچ انڈیا سے ہے ، پاکستان کئ سالوں سے متحدہ عرب امارات میںکرکٹ کھیل رہا ہے اور پاکستان ٹیم اور مینیجمنٹ کو وہاں کی پچز کا بہت اچھی طرح پتہ ہونا چاہئے ، یہ بہانہ اب نہیں چلے گا کہکئ لڑکے نا تجربہ کار تھے یا ٹیم ابھی بن رہی ہے اور ہم مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں ! یا اس ہار سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہےاور اب یہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔
حال ہی میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے جو پاکستان کے ساتھ کیا ہے تو ان سے بھی بدلہ لینے کا اور کرکٹ کے میدان میں انہیں زلیلکرنے کا بہترین موقع ہے کہ انہیں گراؤنڈ میں اپنی بے عزتی کا کڑا جواب دیں ۔پاکستان ٹیم کی سلیکشن اور اسکے بعد کی اُکھاڑپچھاڑ کیا ہوئ اسکے بارے میں بات کرنے کا یہ موقع نہیں ہے اب جو بھی ٹیم گئ ہے اسے ہی فائٹ کرنا ہے ، پاکستان کی عوام کو تعلیم، ریسرچ ، ترقی ، مزہب یا مہنگائ سے تو کوئ سروکار نہیں ہے نہ ہی انہیں کوئ خوشیاں یا انٹرٹینمنٹ مُیسر ہے بس لے دیکر ایککرکٹ ہی رہ گئ ہے اور وہ بھی اگر انڈیا سے میچ ہو تو بائیس کی بائیس کروڑ سب کچھ بھول کر اپنی سانسیں اپنی خوشیاں اوراپنی زندگی اس ہی میں ڈھونڈتے ہیں مگر بدقسمتی سے ورلڈ کپس کے میچز میں انہیں کبھی خوشی میسر نہیں آئ یعنی پاک بھارتمیچ کے حوالے سے ۔ اب یہی امید لگا کر بیٹھے ہوئے کہ شاید اس دفع تاریخ بدل جائے اور پاکستان انڈیا کو ہرا ہی دے ،
یو اے ای کی پچز پر ہائ اسکورنگ میچز کی امید ہے اور ٹاس پر دارومدار ہے کیونکہ شام کی اوس بھی اپنا کردار ادا کرے گی ، میریناقص رائے میں پاکستان کی پلیئنگ الیون یہ ہونی چاہئے ۔
بابر اعظم ، محمد رضوان ، حفیظ ، شعیب ملک ، عماد وسیم ، شاداب خان ، حسن علی ، شاہیں آفریدی ، حارث رؤف ، فخر زمان اورحیدر علی یا محمد نواز میں سے کوئ ایک ( وکٹ دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا )۔
بہر حال یہ تو ایک اپنا خیال ہے مگر جو بھی ٹیم اتاری جائے گی ہماری ہوری امیدیں اور دُعائیں انکے ساتھ ہونگی ۔ پاکستانی عوامبہت دُکھی ہے انکی تو مہنگائ نے کمر توڑ رکھی ہے اور ہزاروں مسائل نے انہیں جکڑ رکھا ہے بس اب خوشیوں کے لئے سب کی امیدیںکرکٹ میچ پر ہیں ۔ بس یہی موقع ہے کہ اب انہیں موقع موقع گانے کا موقع نہ دیا جائے اور اپنی جان لگادیں جیتنے کے لئے ۔